ان کی تاویل کرنا مشکل امر نہیں ہے یہ تمہارے بزرگوں کی اپنے مُنہ کی تجویزیں ہیں کہ فلاں حدیث صحیح ہے اور فلاں حسن اور فلاں مشہور اور فلاں موضوع ہے۔ خدا تعالیٰ کا حکم نہیں اور کسی وحی کے ذریعہ سے یہ تقسیم نہیں ہوئی۔ پھر ایسی حدیث جو قرآن کے مخالف ہو اور بعض دوسری حدیثوں کے بھی مخالف اور خدا کے حکم سے بھی مخالف ہو تو کیا وجہ کہ اس کو ردّ نہ کیا جائے۔ کیا یہ ضروری ہے کہ جب کوئی خدا کی طرف سے آوے تو اُس پر واجب ہے کہ امت موجودہ کے ہر ایک رطب یابس کو مان لے۔ اگر یہی معیار ہے تو نہ حضرت مسیح علیہ السلام کی نبوت ثابت ہو سکتی ہے اور نہ حضرت خاتم الابنیاء کی۔ مثلاً مسیح کے لئے یہودیوں کے ہاتھ میں ملاکی نبی کی کتاب کے حوالہ سے یہ نشان تھا کہ جب تک دوبارہ ایلیا نبی دنیا میں نہ آوے مسیح نہیں آئے گااور دوسرا یہ نشان کہ وہ ایک بادشاہ کی صورت میں ظاہر ہوگا اور غیر طاقتوں کی حکومت سے یہودیوں کو چُھڑائے گا۔ مگر کیا حضرت مسیح بادشاہ ہو کر آئے؟ یا ان کے آنے سے پہلے ایلیا نبی آسمان سے نازل ہوا؟ بلکہ دونوں پیشگوئیاں غلط گئیں اور کوئی نشان حضرت مسیح پر صادق نہ آیا۔ آخر حضرت عیسیٰؔ علیہ السلام نے تاویلات سے کام لیا جن تاویلات کو یہودی اب تک قبول نہیں کرتے اور ان پر ہنسی اور ٹھٹھا کرتے ہیں اور نعوذ باللہ اُن کو مفتری جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ملا کی نبی کی کتاب میں تو صریح اور صاف لفظوں میں فرمایا گیا تھا کہ خود ایلیا نبی ہی دوبارہ آجائے گا یہ تو نہیں فرمایا تھا کہ ان کا کوئی مثیل آئے گا۔ اور ظاہر عبارت پر نظر کرکے یہودی سچے معلوم ہوتے ہیں ایسا ہی آنے والا مسیح ان کی کتابوں میں بادشاہ کے طور پر ظاہر کیا گیا تھا اور ان معنوں میں بھی بظاہر حال یہودی حق بجانب معلوم ہوتے ہیں اور باایں ہمہ اس بات میں کیا شک ہے کہ حضرت مسیح سچے نبی ہیں کیونکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ پیشگوئیوں میں مجاز اور استعارات بھی ہوتے ہیں تبدیل و تحریف کا بھی امکان ہے ۔لہٰذا ہر ایک نبی یا محدث جو حَکَم ہوکر آتا ہے