کی درگاہ میں جواب دینا نہیں پڑے گا؟ گو کیسے ہی دل سخت ہو گئے ہیں آخر اس قدر تو خوف چاہئے تھا کہ جو شخص صدی کے سرپر پیدا ہوا اور رمضان کے کسوف خسوف نے اس کی گواہی دی اور اسلام کے موجودہ ضعف اور دشمنوں کے متواتر حملوں نے اُس کی ضرورت ثابت کی اور اولیاء گذشتہ کے کشوف نے اس بات پر قطعی مہر لگا دی کہ وہ چودھویں صدی کے سر پر پیدا ہوگا اورنیز یہ کہ پنجاب میں ہوگا ایسے شخص کی تکذیب میں جلدی نہ کرتے۔ آخر ایک دن مرنا ہے اور سب کچھ اسی جگہ چھوڑ جانا ہے دیکھو اگر مَیں خدا کی طرف سے ہوا اور تم نے میری تکذیب کی اور مجھے کافر قرار دیا اور دجّال نام رکھا تو جناب الٰہی کو کیا جواب دوگے؟ کیا انہی کی مانند جواب ہیں جو یہودیوں اور عیسائیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے انکار کرنے کے وقت اپنی کتابوں میں لکھے ہیں کہ توریت کے تمام نشان قرار دادہ پورے نہیں ہوئے اور کچھ رہ گئے ہیں۔ سو مدت ہوئی کہ خدا تعالیٰ اُن کو جواب دے چکا کہ جو کچھ تمہارے ہاتھ میں ہے وہ سب کچھ صحیح نہیں ہے اور نہ وہ تمام معنے صحیح ہیں جو تم کر رہے ہو۔ جو شخص حَکَم کرکے بھیجا گیا ہے اس کی بات کو سنو۔ سو ؔ یہی جواب خدا تعالیٰ کی طرف سے اب ہے چاہو تو قبول کرو۔ آہ آپ لوگوں کو چاہئے تھا کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے قصّے سے عبرت پکڑتے۔ ان لوگوں کی حضرت مسیح اور حضرت خاتم الابنیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہی حجت تھی کہ ہم نہیں مانیں گے جب تک تمام علامتیں پوری نہ ہو لیں اور بوجہ زمانہ دراز اور انواع تغیرات کے یہ غیر ممکن تھا اس لئے وہ کفر پر مرے۔ سو تم اُسی طرح ٹھوکر مت کھاؤجو یہودی اور نصرانی کھا چکے اگر تمہارا ذخیرہ سب کا سب صحیح ہوتا تو پھر حَکَم مجدد کے آنے کی کیا ضرورت تھی؟ ہر ایک فرقہ کو یہی خیال ہے کہ جو کچھ میرے پاس ہے یہی صحیح ہے۔ اب یہ تمام فرقے تو سچ پر نہیں اس لئے سچ وہی ہے جو حَکَم کے مُنہ سے نکلے۔ اگر ایمان ہو تو خدا کے مقرر کردہ حَکَم کے حکم سے بعض حدیثوں کا چھوڑنا یا