ایسے وعظوں کو سُن کر ان لوگوں کے دلوں پر جو حیوانات میں اور ان میں کچھ تھوڑا ہی فرق ہے بہت بڑا اثر ہوتا ہے اور وہ درندے ہو جاتے ہیں اور ان میں ایک ذرہ رحم باقی نہیں رہتا اور ایسی بے رحمی سے خون ریزیاں کرتے ہیں جن سے بدن کانپتا ہے۔ اور اگرچہ سرحدی اور افغانی ملکوں میں اس قسم کے مولوی بکثرت بھرے پڑے ہیں جو ایسے ایسے وعظ کیا کرتے ہیں مگر میری رائے تو یہ ہے کہ پنجاب اور ہندوستان بھی ایسے مولویوں سے خالی نہیں۔ اگر گورنمنٹ عالیہ نے یہ یقین کر لیا ہے کہ اس ملک کے تمام مولوی اس قسم کے خیالات سے پاک اور مبرّا ہیں تو یہ یقین بے شک نظر ثانی کے لائق ہے۔ میرے نزدیک اکثر مسجد نشین نادان مغلوب الغضب ُ ّ ملا ایسے ہیں کہ ان گندے خیالات سے َ بری نہیں ہیں اگر وہ ایسے خیالات خدا تعالیٰ کی پاک کلام کی ہدایت کے موافق کرتے تو میں ان کو معذور سمجھتا۔ کیونکہ درحقیقت انسان اعتقادی امور میں ایک طور پر معذور ہوتا ہے لیکن میں سچ سچ کہتا ہوں کہ جیسا کہ وہ گورنمنٹ کے احسانات کو فراموش کرکے اس عادل گورنمنٹ کے چھپے ہوئے دشمن ہیں ایسا ہی وہ خدا تعالیٰ کے بھی مجرم اور نافرمان ہیں۔ کیونکہ میں مفصل بیان کر چکا ہوں کہ خدا تعالیٰ کا کلام ہرگز نہیں سکھلاتا کہ ہم اس طرح پر بے گناہوں کے خون کیا کریں اور جس نے ایسا سمجھا ہے وہ اسلام سے برگشتہ ہے (۲) دوسرا سبب ان مجرمانہ خون ریزیوں کا جو غازی بننے کے بہانہ سے کی جاتی ہیں میری رائے میں وہ پادری صاحبان بھی ہیں جنہوں نے حد سے زیادہ اِس بات پر زور دیا کہ اسلام میں جہاد فرض ہے اور دوسری قوموں کو قتل کرنامسلمانوں کے مذہب میں بہت ثواب کی بات ہے۔ میرے خیال میں سرحدی لوگوں کو جہاد کے مسئلہ کی خبر بھی نہیں تھی یہ تو پادری صاحبوں نے یاد دلایا میرے پاس اس خیال کی تائید میں دلیل یہ ہے کہ جب تک پادری صاحبوں کی طرف سے ایسے اخبار اورؔ رسالے اور کتابیں سرحدی ملکوں میں شائع نہیں ہوئے تھے اس وقت تک ایسی وارداتیں بہت ہی کم سُنی جاتی تھیں یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ بالکل نہیں تھیں۔ بلکہ جب سکھوں کی سلطنت اس ملک سے اُٹھ گئی