اور اُن کی جگہ انگریز آئے تو عام مسلمانوں کو اس انقلاب سے بڑی خوشی تھی اور سرحدی لوگ بھی بہت خوش تھے۔ پھر جب پادری فنڈل صاحب نے ۱۸۴۹ء میں کتاب میزان الحق تالیف کرکے ہندوستان اور پنجاب اور سرحدی ملکوں میں شائع کی اور نہ فقط اسلام اور پیغمبر اسلام علیہ السلام کی نسبت توہین کے کلمے استعمال کئے بلکہ لاکھوں انسانوں میں یہ شہرت دی کہ اسلام میں غیر مذہب کے لوگوں کو قتل کرنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ بڑا ثواب ہے۔ ان باتوں کو سُن کر سرحدی حیوانات جن کو اپنے دین کی کچھ بھی خبر نہیں جاگ اُٹھے اور یقین کر بیٹھے کہ درحقیقت ہمارے مذہب میں غیر مذہب کے لوگوں کو قتل کرنا بڑے ثواب کی بات ہے۔ میں نے غور کرکے سوچا ہے کہ اکثر سرحدی وارداتیں اور پُرجوش عداوت جو سرحدی لوگوں میں پیدا ہوئی اس کا سبب پادری صاحبوں کی وہ کتابیں ہیں جن میں وہ تیز زبانی اور بار بار جہاد کاذکر لوگوں کو سُنانے میں حد سے زیادہ گذرگئے یہاں تک کہ آخر میزان الحق کی عام شہرت اور اس کے زہریلے اثر کے بعد ہماری گورنمنٹ کو ۱۸۶۷ء میں ایکٹ نمبر۲۳ ۶۷ء سرحدی اقوام کے غازیانہ خیالات کے روکنے کے لئے جاری کرنا پڑا۔ یہ قانون سرحد کی چھ ۶ قوموں کے لئے شائع ہوا تھا اور بڑی امید تھی کہ اس سے وارداتیں رُک جائیں گی لیکن افسوس کہ بعد اس کے پادری عمادالدین امرتسری اور چند دوسرے بد زبان پادریوں کی تیز اور گندی تحریروں نے ملک کی اندرونی محبت اور مصالحت کو بڑا نقصان پہنچایا اور ایسا ہی اور پادری صاحبوں کی کتابوں نے جن کی تفصیل کی ضرورت نہیں دلوں میں عداوت کا تخم بونے میں کمی نہیں کی۔ غرض یہ لوگ گورنمنٹ عالیہ کی مصلحت کے سخت حارج ہوئے۔ ہماری گورنمنٹ کی طرف سے یہ کارروائی نہایت قابل تحسین ہوئی کہ مسلمانوں کو ایسی کتابوں کے جواب لکھنے سے منع نہیں کیا اور اس تیزی کے مقابل پر مسلمانوں کی طرف سے بھی کسی قدر تیز کلامی ہوئی مگر وہ تیزی گورنمنٹ کی کشادہ دلی پر دلیل روشن بن گئی اور ہتک آمیز کتابوں کی و جہ سے جن فسادوں کی توقع تھی وہ اس گورنمنٹ عالیہ کی نیک نیتی اور عادلاؔ نہ طریق ثابت ہو جانے کی و جہ سے اندر ہی اندر دب گئے۔ پس اگرچہ ہمیں اسلام کے ملاؤں کی نسبت افسوس سے اقرار کرنا پڑتا ہے