امیر صاحب پر یہ الزام لگاویں کہ اُنہی کے اشارہ سے یہ سب کچھ ہوتا ہے۔ لہٰذا امیر صاحب کا ضرور یہ فرض ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اس غلط فتوے کو روکنے کے لئے جہد بلیغ فرماویں کہ اس صورت میں امیر صاحب کی بریّت بھی آفتاب کی طرح چمک اٹھے گی اور ثواب بھی ہوگا کیونکہ حقوق عباد پر نظر کرکے اس سے بڑھ کر اورؔ کوئی نیکی نہیں کہ مظلوموں کی گردنوں کو ظالموں کی تلوار سے چھڑایا جائے اور چونکہ ایسے کام کرنے والے اور غازی بننے کی نیت سے تلوار چلانے والے اکثر افغان ہی ہیں جن کا امیر صاحب کے ملک میں ایک معتدبہ حصہ ہے اس لئے امیر صاحب کو خدا تعالیٰ نے یہ موقع دیا ہے کہ وہ اپنی امارت کے کارنامہ میں اس اصلاح عظیم کا تذکرہ چھوڑ جائیں اور یہ وحشیانہ عادات جو اسلام کی بدنام کنندہ ہیں جہاں تک اُن کے لئے ممکن ہو قوم افغان سے چھڑا دیں ورنہ اب دورِ مسیح موعود آگیا ہے۔ اب بہرحال خدا تعالیٰ آسمان سے ایسے اسباب پیدا کردے گاکہ جیسا کہ زمین ظلم اور ناحق کی خون ریزی سے پُر تھی اب عدل اور امن اور صلح کاری سے پُر ہو جائے گی۔ اور مبارک وہ امیر اور بادشاہ ہیں جو اس سے کچھ حصہ لیں۔
ان تمام تحریروں کے بعد ایک خاص طور پر اپنی محسن گورنمنٹ کی خدمت میں کچھ گذارش کرنا چاہتا ہوں اور گویہ جانتا ہوں کہ ہماری یہ گورنمنٹ ایک عاقل اور زیرک گورنمنٹ ہے لیکن ہمارا بھی فرض ہے کہ اگر کوئی نیک تجویز جس میں گورنمنٹ اور عامہ خلائق کی بھلائی ہو خیال میں گذرے تو اُسے پیش کریں۔ اور وہ یہ ہے کہ میرے نزدیک یہ واقعی اور یقینی امر ہے کہ یہ وحشیانہ عادت جو سرحدی افغانوں میں پائی جاتی ہے اور آئے دن کوئی نہ کوئی کسی بے گناہ کا خون کیا جاتا ہے اِس کے اسباب جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں دو۲ ہیں (۱) اول وہ مولوی جن کے عقائد میں یہ بات داخل ہے کہ غیر مذہب کے لوگوں اور خاص کر عیسائیوں کو قتل کرنا موجب ثواب عظیم ہے اور اس سے بہشت کی وہ عظیم الشان نعمتیں ملیں گی کہ وہ نہ نماز سے مل سکتی ہیں نہ حج سے نہ زکوٰۃ سے اور نہ کسی اور نیکی کے کام سے۔ مجھے خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ درپردہ عوام الناس کے کان میں ؔ ایسے وعظ پہنچاتے رہتے ہیں۔ آخر دن رات