نہیں ملے گی نامی علماء کوجمع کرکے اس مسئلہ جہاد کو معرض بحث میں لاویں اور پھر علماء کے ذریعہ سے عوام کو اُن کی غلطیوں پر متنبہ کریں بلکہ اس ملک کے علماء سے چند رسالے پشتو زبان میں تالیف کراکر عام طور پر شائع کرائیں تو یقین ہے کہ اس قسم کی کارروائی کا لوگوں پر بہت اثر پڑے گا اور وہ جوش جو نادان ملا عوام میں پھیلاتے ہیں رفتہ رفتہ کم ہو جائے گا اور یقیناًامیر صاحب کی رعایا کی بڑی بدقسمتی ہوگی اگر اس ضروری اصلاح کی طرف امیر صاحب توجہ نہیں کریں گے اور آخری نتیجہ اس کا اُس گورنمنٹ کے لئے خود زحمتیں ہیں جو ؔ ملاؤں کے ایسے فتووں پر خاموش بیٹھی رہے کیونکہ آج کل ان ملاؤں اور مولویوں کی یہ عادت ہے کہ ایک ادنیٰ اختلاف مذہبی کی و جہ سے ایک شخص یا ایک فرقہ کو کافر ٹھہرا دیتے ہیں اور پھر جو کافروں کی نسبت اُن کے فتوے جہاد وغیرہ کے ہیں وہی فتوے ان کی نسبت بھی جاری کئے جاتے ہیں۔ پس اس صورت میں امیر صاحب بھی ان فتووں سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ ممکن ہے کہ کسی وقت یہ ملّالوگ کسی جزوی بات پر امیر صاحب پر ناراض ہو کر اُن کو بھی دائرہ اسلام سے خارج کر دیں اور پھر اُن کے لئے بھی وہی جہاد کے فتوے لکھے جائیں جو کفارکے لئے وہ لکھا کرتے ہیں پس بلا شبہ وہ لوگ جن کے ہاتھ میں مومن یا کافر بنانا اور پھر اس پر جہاد کا فتویٰ لکھنا ہے ایک خطرناک قوم ہے جن سے امیر صاحب کو بھی بے فکر نہیں بیٹھنا چاہئے اور بلا شبہ ہر ایک گورنمنٹ کے لئے بغاوت کا سرچشمہ یہی لوگ ہیں۔ عوام بے چارے ان لوگوں کے قابو میں ہیں اور ان کے دلوں کی کل ان کے ہاتھ میں ہے جس طرف چاہیں پھیر دیں اور ایک دم میں قیامت برپا کر دیں۔ پس یہ گناہ کی بات نہیں ہے کہ عوام کو ان کے پنجہ سے چھڑا دیا جائے اور خود ان کو نرمی سے جہاد کے مسئلہ کی اصل حقیقت سمجھا دی جائے۔ اسلام ہر گز یہ تعلیم نہیں دیتا کہ مسلمان رہزنوں اور ڈاکوؤں کی طرح بن جائیں اور جہاد کے بہانہ سے اپنے نفس کی خواہشیں پوری کریں اور چونکہ اسلام میں بغیر بادشاہ کے حکم کے کسی طرح جہاد درست نہیں اور اس کو عوام بھی جانتے ہیں۔ اس لئے یہ بھی اندیشہ ہے کہ وہ لوگ جو حقیقت سے بے خبر ہیں اپنے دلوں میں