کرتے ہیں کہ وہ تصحیح حدیث بطور کشف براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے تھے اور اس ذریعہ سے کبھی صحیح حدیث کو موضوع کہہ دیتے تھے اور کبھی موضوع کا نام صحیح رکھتے تھے۔ پس سوچو اور سمجھو کہ جس شخص کے ذمہ اسلام کے ۷۳ فرقوں کی نزاعوں کا فیصلہ کرنا ہے کیا وہ محض مقلد کے طور پر دنیا میں آسکتا ہے۔ پس یقیناًسمجھو کہ یہ ضروری تھا کہ وہ ایسے طور سے آتا کہ بعضؔ نادان اس کو یہ سمجھتے کہ گویا وہ اُن کی بعض حدیثوں کو زیرو زبر کر رہا ہے یا بعض کو نہیں مانتا اِسی لئے تو آثار میں پہلے سے آچکا ہے کہ وہ کافر ٹھہرایا جائے گا اور علماءِ اسلام اُس کو دائرۂ اسلام سے خارج کریں گے اور اس کی نسبت قتل کے فتوے جاری ہو ں گے۔ کیا تمہارا مسیح بھی میری طرح کافر اور دجّال ہی کہلائے گا؟ اور کیا علماء میں اُس کی یہی عزّت ہوگی؟ خدا سے خوف کرکے بتلاؤ کہ ابھی یہ پیشگوئی پوری ہو گئی یا نہیں۔ ظاہر ہے کہ جبکہ مسیح اور مہدی کی تکفیر تک نوبت پہنچے گی اور علمائے کرام اور صوفیائے عظام اُن کا نام کافر اور دجّال اور بے ایمان اور دائرۂ اسلام سے خارج رکھیں گے تو کیا کسی ادنیٰ سے ادنیٰ اختلاف پر یہ شور قیامت برپا ہو گا یہاں تک کہ بجز چند افراد کے تمام علماءِ اسلام جو زمین پر رہتے ہیں سب اتفاق کر لیں گے کہ یہ شخص کافر ہے یہ پیشگوئی بڑے غور کے لائق ہے کیونکہ بڑے زور سے آپ لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے اُس کو پورا کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ شبہات کہ کیوں صحاح سِتّہ کی وہ تمام حدیثیں جو مہدی اور مسیح موعود کے بارے میں لکھی ہیں اس جگہ صادق نہیں آتیں اس سوال سے حل ہو جاتی ہیں کہ کیوں اخبار و آثار میں یہاں تک کہ مکتوبات مجدّد صاحب سرہندی اور فتوحات مکیہ اور حجج الکرامہ میں لکھا ہے کہ مہدی اور مسیح کی علمائے وقت سخت مخالفت کریں گے اور ان کا نام گمراہ اور ملحد اور کافر اور دجّال رکھیں گے اور کہیں گے کہ انہوں نے دین کو بگاڑ دیا اور احادیث کو چھوڑ دیا اِس لئے وہ واجب القتل ہیں کیونکہ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ضرور ہے کہ آنے والے مسیح اور مہدی بعض حدیثوں کو جو علماء کے نزدیک صحیح ہیں چھوڑ دیں گے بلکہ اکثر کو چھوڑیں گے