وايّ جھالۃٍ اکبرمن انّھم ذھبوالٰی اقوالٍ شتّٰی وبزرگ تر ازیں جہل چہ باشد کہ گفتار ہائے پراگندہ را قبول کردہ اند اور اس سے زیادہ اور کیا جہالت ہے کہ پریشان باتوں کو مانا ہوا ہے۔ وبوعد القراٰن لا یؤمنون۔ وانّہٗ کتابٌ لا و وعدۂ قرآن را نمے پذیرند و قرآن کتابے است کہ اور قرآن کے وعدہ کو قبول نہیں کرتے اور قرآن ایک ایسی کتاب ہے یأتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہٖ باطل را از پیش و از پس دراں راہ نیست کہ باطل کو اس میں کسی طرف سے راہ نہیں وھل یستوی الیقین والظّنون۔ وانّ الاحادیث و آیا ممکن است کہ یقین و گمان برابر بشوند و ثابت است کہ ہمہ حدیث ہا اور کیا ممکن ہے کہ یقین اور گمان برابر ہو جائیں۔ اور ثابت ہے کہ تمام حدیثیں کلّھا قد جمعت بعد ماءۃٍ او مأتین وانّ بعد از یک صد یا دو صد سال جمع کردہ شدہ اند و ایک سو یا دو سو برس کے بعد جمع کی گئی ہیں اور فرق الاسلام فیھا یتنا زعون۔ وامّا القراٰن فرقہائے مسلماناں دراں ہا نزاع و جنگ مے کنند و درحقیقت در قرآن مسلمانوں کے فرقے ان میں لڑتے جھگڑتے ہیں اور حقیقت میں قرآن میں فلاشبھۃ فیہ وانّہٗ ھو الّذی نزل صدقًا و ہیچ شبہ نیست و ہموں بر نبی ما کوئی شبہ نہیں اور وہی ہمارے نبی پر