اعتقاؔ د ظاہر کرتے ہیں کہ مسیح کے اترنے سے کچھ عرصہ پہلے بنی فاطمہ میں سے ایک امام پیدا ہوگا جس کا نام محمد مہدی ہوگا اور دراصل خلیفۂ وقت اور بادشاہ وہی ہوگا کیونکہ وہ قریش میں سے ہوگا۔ اور چونکہ اصل غرض اس کی یہ ہوگی کہ تمام غیر قوموں کو جو اسلام سے منکر ہیں قتل کر دیا جائے بجز ایسے شخص کے کہ جو جلدی سے کلمہ پڑھ لے اس لئے اُس کی مدد اور ہاتھ بٹانے کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتریں گے اور گو حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی بجائے خود ایک مہدی ہیں بلکہ بڑے مہدی وہی ہیں لیکن اس سبب سے کہ خلیفۂ وقت قریش میں سے ہونا چاہئیے اس لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام خلیفۂ وقت نہیں ہوں گے بلکہ خلیفۂ وقت وہی محمد مہدی ہوگا۔ اور کہتے ہیں کہ یہ دونوں مل کر زمین کو انسانوں کے خون سے بھر دیں گے اور اس قدر خونریزی کریں گے جس کی نظیر ابتداء دنیا سے اخیر تک کسی جگہ نہیں پائی جائے گی اور آتے ہی خونریزی ہی شروع کر دیں گے اور کوئی وعظ وغیرہ نہیں کریں گے اور نہ کوئی نشان دکھائیں گے اور کہتے ہیں کہ اگرچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام امام محمد مہدی کے لئے بطور مشیر یا وزیر کے ہوں گے اور عنانِ حکومت صرف مہدی کے ہاتھ میں ہوگی لیکن حضرت مسیح تمام دنیا کے قتل کرنے کے لئے حضرت امام محمد مہدی کو ہر وقت اکسائیں گے۔ اور تیز مشورے دیتے رہیں گے۔ گویا اُس اخلاقی زمانہ کی کسر نکالیں گے جبکہ آپ نے یہ تعلیم دی تھی کہ کسی شر کا مقابلہ مت کرو اور ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری گال بھی پھیر دو۔
یہ مسلمانوں اور مسیحیوں کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت عقیدے ہیں اور اگرچہ عیسائیوں کی یہ ایک بڑی غلطی ہے کہ وہ ایک عاجز انسان کو خدا کہتے ہیں لیکن بعض اہلِ اسلام جن میں سے اہلِ حدیث کا وہ فرقہ بھی ہے جن کو وہابی بھی کہتے ہیں ان کے یہ عقائد کہ جو خونی مہدی اور خونی مسیح موعود کی نسبت ان کے دلوں میں ہیں ان کی اخلاقی حالتوں پر نہایت بد اثر ڈال رہے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اس بد اثر کی وجہ سے نہ کسی دوسری قوم سے نیک نیتی اور صلح کاری اور دیانت کے ساتھ رہ سکتے ہیں