دوری زمانہ کے انتہا پر ختم ہوتی۔ سو یہ زمانہ جو آخر الزمان ہے۔اِس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے ایک شخص کو حضرت آدم علیہ السلام کے قدم پر پیدا کیا جو یہی راقم ہے اور اس کا نام بھی آدم رکھا۔ جیسا کہ مندرجہ بالا الہامات سے ظاہر ہے اور پہلے آدم کی طرح خدا نے اِس آدم کو بھی زمین کے حقیقی انسانوں سے خالی ہونے کے وقت میں اپنے دونوں ہاتھوں جلالی اور جمالی سے پیدا شعبہ قرابت نہ تھا۔ مگر خالص خدا کی طرف بلانے سے سب کے سب دشمن ہو گئے اور بجز خدا کے ایک بھی ساتھ نہ رہا ۔ پھر خدا نے جس طرح ابرہیم کو اکیلا پا کر اس قدر اولاد دی جو آسمان کے ستاروں کی طرح بے شمار ہو گئی اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اکیلا پا کر بے شمار عنایت کی اور وہ صحابہ آپ کی رفاقت میں دیئے جو نجوم السماء کی طرح نہ صرف کثیر تھے بلکہ ان کے دل توحید کی روشنی سے چمک اٹھے تھے۔ غرض جیسا کہ صوفیوں کے نزدیک مانا گیا ہے کہ مراتب وجود دوریہ ہیں اسی طرح ابراہیم علیہ السلام نے اپنی خُو اور طبیعت اور دلی مشابہت کے لحاظ سے قریباً اڑھائی ہزار برس اپنی وفات کے بعد پھر عبد اللہ پسر عبد المطلب کے گھر میں جنم لیا اور محمد کے نام سے پکار ا گیا صلی اللہ علیہ و سلم ۔ اور مراتب وجود کا دوریہ ہونا قدیم سے اور جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی سنت اللہ میں داخل ہے۔ نوع انسان میں خواہ نیک ہوں یا بد ہوں یہی عادت اللہ ہے کہ ان کا وجودخُو اور طبیعت اور تشابہ قلوب کے لحاظ سے باربار آتا ہے جیسا کہ آیت 3 ۱؂ اس کی مصدق ہے اور تمام صوفیوں کا ؔ یہ خیال ہے کہ اگرچہ مراتب وجود دوری ہیں مگر مہدی معہود بروزات کے لحاظ سے پھر دنیا میں نہیں آئے گا کیونکہ وہ خاتم الاولاد ہے اور اس کے خاتمہ کے بعد نسل انسانی کوئی کامل فرزند پیدا نہیں کرے گی باستثناء ان فرزندوں کے جو اس کی حیات میں ہوں کیونکہ بعد میں بہائم سیرت لوگوں کا غلبہ ہوتا جائے گا۔ یہاں تک کہ خداتعالیٰ کی محبت بالکل دلوں سے جاتی رہے گی اور نفس پرست اور شکم پر ست بن جائیں گے۔ یہ بعض اکابر اولیاء کے مکاشفات ہیں اور اگر احادیث