کرکے اس میں اپنی روح پھونکی کیونکہ دنیا میں کوئی روحانی انسان موجود نہ تھا جس سے یہ آدم روحانی تولّد پاتا۔ اس لئے خدا نے خود روحانی باپ بن کر اس آدم کو پیدا کیا اور ظاہری پیدایش کے رُو سے اسی طرح نر اور مادہ پیدا کیا جس طرح کہ پہلا آدم پیدا کیا تھا یعنی اس نے مجھے بھی جو آخری آدم ہوں جوڑا پیدا کیا جیسا کہ الہام یا آدم اسکن انت وزوجک الجنّّۃ میں اس کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے اور بعض گذشتہ اکابر نے خدا تعالیٰ سے الہام پاکر یہ پیشگوئی بھی کی تھی کہ وہ انتہائی آدم جو مہدی کامل اور خاتم ولایت عامہ ہے اپنی جسمانی خِلقت کے رُو سے جوڑا پیدا ہوگا یعنی آدم صفی اللہ کی طرح مذکر اور مؤنث کی صورت پر پیدا ہوگا اور خاتم الاولاد ہوگا کیونکہ آدم نوع انسان میں سے پہلا مولود تھا۔ سو ضرور ہوا کہ وہ شخص نبویہ کو بنظر غور دیکھا جائے تو بہت کچھ ان سے ان مکاشفات کو مدد ملتی ہے۔ لیکن یہ قول اسی حالت میں صحیح ٹھہرتا ہے جبکہ مہدی معہود اور مسیح موعود کو ایک ہی شخص مان لیا جائے اور یاد رہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی امت کی دوحدیں مقرر کر دی ہیں اور فرمادیا ہے کہ وہ امت ضلالت سے محفوظ ہے جس کے اول میں میرا وجود اور آخر میں مسیح موعود ہے۔ یعنی ایک طرف وجود باجود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی دیوار روئیں ہے اور دوسری طرف وجود بابرکت مسیح موعود کی دیوار دشمن کش ہے۔ اس حدیث سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسے لوگوں کو اپنی امت میں داخل نہیں سمجھا جو مسیح موعود کے زمانہ کے بعد ہوں گے اور مسیح موعود کا زمانہ اس حد تک ہے جس حد تک اس کے دیکھنے والے یا دیکھنے والوں کے دیکھنے والے اور یا پھر دیکھنے والوں کے دیکھنے والے دنیا میں پائے جائیں گے اور اس کی تعلیم پر قائم ہوں گے۔ غرض قرون ثلاثہ کا ہونا برعایت منہاج نبوت ضروری ہے اور پھر نیکی اور پاکیزگی کا خاتمہ ہے اور بعد میں اس گھڑی اور اس ساعت الفناء کی انتظار ہے جس کا علم بجز خداتعالیٰ کے فرشتوں کو بھی نہیں۔ منہ