سمجھ چکے۔ کوئی نہ کہتا تھا کہ یہ بچے گا لیکن چونکہ زندگی کے دِن باقی تھے بوڑھے باپ کی مضطر بانہ دعائیں خدا نے سن لیں اور محض اُس کے فضل سے صحیح سلامت بچ نکلا۔ اگرچہ پٹھوں میں کمزوری اور زبان میں لکنت ابھی باقی ہے۔ یہ حوادثِ جانکاہ تو ایک طرف اُدھر مخالفوں نے اور بھی شور مچا دیا تھا۔ آبرو ریزی اور طرح طرح کے مالی نقصانوں کی کوششوں میں کوئی دقیقہ اُٹھانہ رکھا۔ غریب خانہ میں نقب زنی کا معاملہ بھی ہوا۔ اب تمام مصیبتوں میں یکجائی طور پر غور کرنے سے بخوبی معلوم ہوسکتا ہے کہ عاجز راقم کس قدر بلیہ دل دوز سینہ سوز میں مبتلا رہا اور یہ سب انہی آفات و مصائب کا ظہور ہوا جس کی حضور نے پہلے سے ہی مجمل طور پر خبر کردی تھی۔ اسی اثناء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ازراہِ نوازش تعزیت کے طور پر ایک تسلّی دہندہ چٹھی بھیجی وہ بھی ایک پیشگوئی پر مشتمل تھی جو پوری ہوئی اور ہو رہی ہے ۔ لکھاتھا کہ ’’ واقع میں آپ کو سخت ابتلا پیش آیا۔ یہ سُنّت اللہ ہے تاکہ وہ اپنے مستقیم الحال بندوں کی استقامت لوگوں پر ظاہر کرے اور تاکہ صبر کرنے سے بڑے بڑے اجر بخشے۔ خدا تعالیٰ ان تمام مصیبتوں سے مَخلصی عنایت کردے گا۔ دشمن ذلیل و خوار ہوں گے جیسا کہ صحابہ کے زمانہ میں ہوا کہ خدا تعالیٰ نے اُن کی ڈوبتی کشتی کو تھام لیا ایسا ہی اِس جگہ ہوگا۔ اُن کی بد دعائیں آخر اُنہی پر پڑیں گی‘‘۔ سو بارے الحمدللہ کہ حضور کی دعا سے ایسا ہی ہوا۔ عاجز ہر حال استقامت و صبر میں بڑھتا گیا۔ باوجود بشریت اگر کبھی مداہنہ کے طور پر مخالفوں کی طرف سے صلح صفائی کا پیغام آیا تو بدیں خیال کہ پھر یہ انبیاء کی مصیبتوں سے حصہ کہاں۔ دل میں ایسی صلح کرنے سے ایک قبض سی وارد ہو جاتی۔ اور میں نے بچشم خود مخالفوں کی یہ