قولنج وقے مُفرط سخت بیمار ہے۔ جب میں گھر پہنچا اور دیکھا تو واقع میں ایک نازک حالت طاری تھی اور عجیب تر یہ کہ شروع بیماری وہی رات تھی جس کی شام کو حضور نے اِس ابتلا سے اطلاع دی تھی۔ شدّتِ درد کا یہ حال تھا کہ جان ہردم ڈوبتی جاتی تھی اور بے تابی ایسی تھی کہ باوجود کثیر الحیاء ہونے کے مارے درد کے بے اختیار ان کی چیخیں نکلتی تھیں اور گلی کوچے تک آواز پہنچتی تھی اور ایسی نازک اور دردناک حالت تھی کہ اجنبی لوگوں کو بھی وہ حالت دیکھ کر رحم آتا تھا۔ شدّت مرض تخمیناً تین ماہ تک رہی۔ اس قدر مُدّت میں کھانے کا نام تک نہ تھا صرف پانی پیتیں اور قے کردیتیں۔ دن رات میں پچاس ساٹھ دفعہ متواتر قے ہوتی۔ پھردرد قدرے کم ہوا مگر نادان طبیبوں کے بار بار فصد لینے سے ہزال مفرط کی مرض مستقل طور پر دامنگیر ہوگئی۔ ہر وقت جان بلب رہتیں دس گیارہ دفعہ تو مرنے تک پہنچ کر بچوں اورعزیز اقربا کو پورے طور پر الوداعی غم و الم سے رُلایا۔ غرض گیارہ مہینے تک طرح طرح کے دُکھوں کی تختہ مشق رہ کر آخر کشادہ پیشانی بہوش تمام کلمہ شریف پڑھ کر ۲۸ برس کی عمر میں سفر جاودانی اختیار کیا۔ اِنّا للّٰہ واِنّا اِلیہ راجعون۔ اور اس حادثہ جانکاہ کے درمیان ایک شیر خوار بچہ رحمت اللہ نام بھی دودھ نہ ملنے کے سبب سے بھوکا پیاسا راہی ملک بقا ہوا۔ ابھی یہ زخم تازہ ہی تھا کہ عاجز کے دو بڑے بیٹے عبدالرحیم و فیض رحیم تپ محرقہ سے صاحبِ فراش ہوئے۔ فیض رحیم کوؔ تو ابھی گیارہ دن پورے نہ ہونے پائے کہ اُس کا پیالہ عمر کا پورا ہوگیا اور سات سالہ عمر میں داعی اَجل کو لبیک کہہ کر جلدی سے اپنی پیاری ماں کو جاملا اور عبد الرحیم تپ محرقہ اور سرسام سے برابر دوڈھائی مہینے بیہوش میّت کی طرح پڑا رہا۔ سب طبیب لا علاج