ہوگا کہ اس قدر مسلمانوں کا مال ضائع ہوگیا۔ میرے ایک دوست میرزا خدا بخش صاحب مسٹر سیّد محمود صاحب سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ اگر میں اس نقصان کے وقت علی گڑھ میں موجود نہ ہوتا تو میرے والد صاحب ضرور اس غم سے مر جاتے ۔ یہ بھی مرزا صاحب نے سنا کہ آپ نے اِس غم سے تین دن روٹی نہیں کھائی اور اس قدر قومی مال کے غم سے دل بھر گیا کہ ایک مرتبہ غشی بھی ہوگئی۔ سو اے سیّد صاحب یہی حادثہ تھا جس کااس اشتہار میں صریح ذکر ہے۔ چاہو تو قبول کرو۔ والسلام۔ ۱۲؍ مارچ ۱۸۹۷ ؁ء ‘‘ ۷۴ منجملہ اُن نشانوں کے جو پیشگوئی کے طور پرظہور میں آئے وہ پیشگوئی ہے جو میں نے اخویم قاضی ضیاء الدین صاحب قاضی کوٹی ضلع گوجرانوالہ کے متعلق کی تھی اور میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اِس جگہ خود اُن کے خط کی عبارت نقل کردوں جو اِس پیشگوئی کے بارے میں انہوں نے میری طرف بھیجا ہے اور وہ یہ ہے:۔ ’’ مجھے یقینی یاد ہے کہ حضور علیہ السلام نے بماہ مارچ *۱۸۸۸ ؁ء جبکہ اِس عاجز نے آپ کے دست حق پرست پر بیعت کی تو ایک لمبی دعا کے بعد اُسی وقت آپ نے فرمایا تھا کہ قاضی صاحب آپ کو ایک سخت ابتلا پیش آنے والا ہے۔ چنانچہ اِس پیشگوئی کے بعد اِس عاجز نے کئی اپنے عزیز دوستوں کو اِس سے اطلاع بھی دے دی کہ حضور نے میری نسبت اور میرے حق میں ایک ابتلائی حالت کی خبردی تھی اب اِس کے بعد جس طرح پروہ پیشگوئی پوری ہوئی وہ وقوعہ بعینہٖ عرض کرتا ہوں کہ میں حضرت اقدس سے روانہ ہوکر ابھی راستہ میں ہی تھا کہ مجھے خبر ملی کہ میری اہلیہ بعارضہ درد گردہ و * سہواً مارچ ۱۸۸۸ ؁ء لکھا گیا ہے پہلی بیعت ۲۳؍ مارچ ۱۸۸۹ ؁ء کو لدھیانہ میں ہوئی تھی۔ (ناشر