میں بھی اس کی طرف اشارہ تھا لیکن بعد اس کے بوضاحت تمام الہام الٰہی نے یہ بات کھول دی اور مجھ کو اچھی طرح بتلایا گیا کہ سیّد صاحب ایک شدید غم اٹھانے کے بعد جلد فوت ہوجائیں گے۔ پھر جبکہ سیّد صاحب کو ایک ہندو کی شرارت سے مالی غم پیش آگیا تومجھے یقین دلایا گیا کہ اب سیّد صاحب کی وفات کا وقت آگیا۔ تب میں نے یہ اشتہار ۱۲؍مارچ ۱۸۹۷ ء شائع کرکے ایک پرچہ اُن کو بھی بھیج دیا اوروہ اشتہار یہ ہے۔
نقل مطابق اصل
3 نحمدہٗ ونصلی علٰی رسولہ الکریم
’’ سید احمد خاں صاحب کے ۔ سی۔ ایس ۔آئی ‘‘
’’ سید صاحب اپنے رسالہ الدّعا والاستجابت میں اس بات سے انکاری ہیں کہ دُعا میں جو کچھ مانگا جائے وہ دیا جائے۔ اگر سید صاحب کی تحریر کا یہ مطلب ہوتا کہ ہرایک دُعا کا قبول ہونا واجب نہیں بلکہ جس دُعا کو خدا تعالیٰ قبول فرمانا اپنے مصالح کے رُو سے پسند فرماتا ہے وہ دُعا قبول ہو جاتی ہے ورنہ نہیں تو یہ قول بالکل سچ ہوتا۔ مگر سرے سے قبولیت دُعا سے انکار کرنا تو خلاف تجارب صحیحہ و عقل و نقل ہے۔ ہاں دُعاؤں کی قبولیت کے لئے اُس رُوحانی حالت کی ضرورت ہے جس میں انسان نفسانی جذبات اور میل غیر اللہ کا چولہ اتارکر اور بالکل رُوح ہوکر خدا تعالیٰ سے جاملتا ہے۔ ایسا شخص مظہر العجائب ہوتا ہے اور ؔ اس کی محبت کی موجیں خدا کی محبت کی موجوں سے یوں ایک ہوجاتی ہیں جیسا کہ دو شفاف پانی دو متقارب چشموں سے جوش مارکر آپس میں مل کر بہنا شروع