دکھائیں اور میں تعریف کرتا پھروں گا تب ریاست اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے ایک لاکھ روپیہ دے دے گی اس میں دو حصے میرے اور ایک حصہ آپ کا ہوا ۔‘‘ گویا اس تقریر میں ؔ وہ ٹھگ جو سادھو کہلاتے ہیں مجھے قراردیا۔ ایسا ہی اور کئی باتیں تھیں جن کااب اُن کی وفات کے بعد لکھنا بے فائدہ ہے۔ اس قدر تحریر سے غرض یہ ہے کہ اس پہلو کی کمزوری بھی ان میں موجود تھی جو دولت اور عزت اور ناموری تک پہنچ کر تکبراور نخوت اور رعونت اورخودپسندی کے رنگ میں ظہور میں آتی ہے اور یہ اُن کا قصور نہیں ہے بلکہ ہر ایک دنیا دار کا یہی حال ہے کہ وہ دو قسم کی کمزوری اپنے اندر رکھتا ہے مثلاً ایک شخص جو مولوی کے خطاب سے مشہورہے وہ اپنے تئیں مولوی کہلاکر نہیں چاہتا کہ دوسرے کا عزت سے نام بھی لے بلکہ اس کی بڑی مہربانی ہوگی اگر وہ دوسرے کو منشی بھی کہہ دے۔ بہت سے دولتمند رئیس یا مسلمان حکام ہیں وہ اِس بات کو اپنے لئے سخت عار سمجھتے ہیں کہ کسی السلام علیکم کا جواب دیں اور اگر کوئی السلام علیکم کہے تو بہت بُرا مانتے ہیں اور اگر ممکن ہو تو سزا دے دیں۔ یہ تمام کمزوری کے طریق ہیں اور اِس کو چراغ نبوت سے روشنی لینے والے اخلاقی کمزوری سے نامزد کرتے ہیں غرض سید احمد خاں صاحب کی موت بھی آخر کمزوری کی وجہ سے ہوئی۔ خدا اُن پر رحم کرے۔
اب ہم اس اشتہار مورخہ ۱۲؍ مارچ ۱۸۹۷ ء کو جس میں سید احمد خاں صاحب کی موت کی نسبت پیشگوئی ہے بعینہٖ اِس جگہ در ج کردیتے ہیں اور یہ اشتہار لاکھوں انسانوں میں مشتہر ہوچکا ہے اور ہم بہت سے لوگوں کو قبل از وقت زبانی کہہ چکے ہیں کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے معلوم کرادیا ہے کہ اب عنقریب سیّد صاحب فوت ہوجائیں گے اور اشتہار ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ ء