اور ثابت قدمی اور روحانی زندگی اور استقامت اور اخلاق نبوت عطا کرتا ہے۔ اس لئے وہ معمولی دنیا داروں کی طرح اس مالی صدمہ کی برداشت نہ کرسکے اور اسی غم سے د ن بدن کو فتہ ہوکر ان کی رُوح تحلیل ہوتی گئی یہاں تک کہ یہ مردارِ دنیا جس کو وہ بڑا مدعا سمجھتے تھے ایک دم میں ان سے جدا ہوگیا گویا وہ کبھی دنیا میں نہیں آئے تھے مگر افسوس یہ ہے کہ جیسا کہ غموم اور صدمہ مالی کے وقت میں دلی کمزوری ان سے ظہور میں آئی اور اس مصیبت سے غشی بھی ہوگئی اور آخر اسی میں انتقال فرما گئے۔ ایسا ہی دوسرے پہلو کی وجہ سے یعنی جب اُن کو دنیا کی عزت اور مرتبت اور عروج اور ناموری حاصل ہوئی تو ان ایام میں بھی ان سے اس دوسرے رنگ میں سخت کمزوری ظہور میں آئی ان کے وقت میں خدا نے یہ آسمانی سلسلہ پیدا کیا مگر اُنہوں نے اپنی دنیوی عزت کی وجہ سے اِس سلسلہ کو ایک ذرہ عظمت کی نظر سے نہیں دیکھا بلکہ اپنے ایک خط میں کسی اپنے روآشنا کو لکھا کہ یہ شخص جو ایسا دعویٰ کرتا ہے بالکل ہیچ ہے اور اس کی تمام کتابیں لغو اور بے سود اور باطل ہیں اور اس کی تمام باتیں ناراستی سے بھری ہوئی ہیں۔ حالانکہ سرسیّد صاحب اِس بات سے بکلّی محروم رہے کہ کبھی میرے کسی چھوٹے سے رسالہ کو بھی اوّل سے آخر تک دیکھیں وہ غصے کے وقت میں دنیوی رعونت سے ایسے مدہوش تھے کہ ہر ایک کو اپنے پیروں کے نیچے کچلتے تھے اور یہ دکھلاتے تھے کہ گویاان کو دنیوی حیثیت کے رُو سے ایسا عروج ہے کہ ان کا کوئی بھی ثانی نہیں۔ ہنسی اور ٹھٹھا کرنا اکثر ان کا شیوہ تھا۔ جب میں ایک دفعہ علی گڈھ میں گیا تومجھ سے بھی اسی رعونت کی وجہ سے جس کا محکم پودہ ان کے دل میں مستحکم ہوچکا تھا ہنسی ٹھٹھا کیا اور یہ کہا کہ ’’آؤ میں مرید بنتا ہوں اور آپ مرشد بنیں اور حیدرآباد میں چلیں اورکچھ جھوٹی کرامات