بزدلی او ر بے دلی کے آثار اُن میں ظاہر کرتی ہے۔ یہاں تک کہ بعض اُن میں سے صدماتِ عظیمہ کے برداشت نہ کرنے کی وجہ سے پاگل اورؔ دیوانہ ہو جاتے ہیں اور بعض کو دیکھا گیا ہے کہ کئی اور قسم کے دماغی اور دلی امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور غشی یا مرگی یا اسی کے مشابہ او ر امراضِ خبیث اُن کے دامنگیر ہو جاتے ہیں اور بعض اس امتحان میں بہت ہی کمزور نکلتے ہیں اور کسی شدید غم کے حملہ کے وقت یا تو اپنے ہاتھ سے خودکشی کرلیتے ہیں اور یا خود وہ فوق الطاقت غم دل پر اثر کرکے اُن کو یک دفعہ اِس ناپائدار دنیا سے دوسرے عالم کی طرف کھینچ لے جاتا ہے اور اِس چند روزہ زندگی کا تمام تانا بانا جس کو انہوں نے ایک بڑی مراد سمجھ رکھا تھا ایک دم میں توڑ کر تمام کاروبار اُن کا خواب و خیال کی طرح کر دیتا ہے۔ غرض دنیا دار انسان کے دل کی کمزوری حکومت اور دولت اور آسایش اور صحت کے وقت میں تکبر اور نخوت اور گردن کشی کے رنگ میں ظاہر ہوتی ہے تب وہ بدقسمتی سے اپنے جیسا کسی کو نہیں سمجھتا اور ایک نبی بھی اگر اُس کے وقت میں ہو اور اُس کے سامنے اس کاذکر کیا جائے تو تحقیر اور توہین سے اس کو یاد کرتا ہے اور ڈرتا ہے کہ اس کی بزرگی ماننے سے میری بزرگی میں فرق نہ آجائے اور نہیں چاہتا کہ کوئی عظمت اس کی عظمت کے مقابل ٹھہر سکے اور پھر وہی کمزوری کسی سخت صدمہ اور حادثہ کے وقت میں غشی یا مرگی یا خودکشی یا دیوانگی یا گداز ہو ہو کر مرجانے کے رنگ میں ظاہر ہوجاتی ہے پس یہ عبرت کامقام ہے کہ دنیاداری کا انجام کیسا بد اور ہولناک ہے اور چونکہ سیّد صاحب دنیا کی جاہ اور حشمت کے طلب گار تھے او راُن لوگوں میں سے نہیں تھے جن کے دلوں کو خدا تعالیٰ دنیا سے بکلّی منقطع کرکے روحانی شجاعت