پہلے جس قدر رسول اور نبی گذرے ہیں سب کو یہؔ بلا پیش آئی تھی کہ شریر لوگ کتوں کی طرح اُن کے گرد ہوگئے تھے۔ اور صرف ہنسی او رٹھٹھے پر ہی کفایت نہیں کی تھی بلکہ چاہا تھا کہ اُن کو پھاڑ ڈالیں اور ٹکڑے ٹکڑے کردیں۔ مگر خداتعالیٰ کے ہاتھ نے اُن کو بچا لیا۔ ایسا ہی میرے ساتھ ہو اکہ اِن مولویوں نے
یحییٰ نبی ہی ایلیا ہے اور یحییٰ ایلیا ہونے سے منکر ہے تو اِس کا جواب یہ ہے کہ ان دونوں قولوں میں کچھ بھی تناقض نہیں کیونکہ مسیح تو یحییٰ کو باعتبار اُس کی خو اور طبیعت کے ایلیا ٹھہراتا ہے نہ حقیقی طور پر او رحضرت یحییٰ اِس بات سے انکار کرتے ہیں کہ وہ حقیقی طورپر ایلیا ہوں۔ اور اہلِ تناسخ کے عقیدے کے موافق ایلیا کی رُوح ان میں آگئی ہو۔ پس حضرت مسیح ایک استعارہ استعمال کرکے یحییٰ کو ایلیا قرار دیتے ہیں اور حضرت یحییٰ حقیقت پر نظر کرکے ایلیا ہونے سے انکار کرتے ہیں فلمّا اختلف الجھات لم یبق التّناقض فتدبّر۔ اور اگر اس طرح پر تناقض ہوسکتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ کے کلام میں بھی نعوذ باللہ تناقض ماننا چاہیئے کیونکہ ایک طرف تو تمام قرآن اِس مضمون سے بھرا ہے کہ جو شخص ایمان لاوے اورتقویٰ اختیار کرے خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور خواہ بینا ہو یا اندھا وہ سب نجات پائیں گے اور دوسری طرف یہ بھی آیت ہے 33 ۱ یعنی اندھے اور گونگے اور بہرے خدا سے دور رہیں گے اور یہ بھی آیت ہے 3 33۲ یعنی جو اس جہان میں اندھا ہوگا وہ اُس جہان میں بھی اندھا ہوگا ایسا ہی ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔333۳ اِس جگہ بظاہر انکار دیدار ہے اور اِس کے مخالف یہ آیت ہے۔ 3 ۴ اس سے دیدار ثابت ہوتاہے۔ سو مسیح اور یحییٰ کے کلمات میں اِسی قسم کا تناقض ہے جو دراصل تناقض نہیں۔ ایک نے مجاز کو ذہن میں رکھا اور دوسرے نے حقیقت کو۔ اِس لئے کچھ تناقض نہ ہوا۔