تدبیریں تو ہر ایک قسم کی کیں مگر کچھ بھی پیش نہؔ گئی او ر خدا تعالیٰ نے اپنے اُس وعدہ کو پورا کیا جو براہین احمدیہ کے صفحہ پانسو ۵۱۰دس میں درج تھا یعنی یہ کہ خدا تعالیٰ تجھے دشمنوں کی ہر ایک بد اندیشی سے بچائے گا اگرچہ لوگ تجھے ہلاک کرنا چاہیں سو یہ ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے کہ جو منہاج نبوت پر واقع ہوئی کیونکہ مجھ سے ایک یہ بھی احسان ہے کہ انہوں نے اِس غلطی سے بچنے کے لئے جو آیندہ زمانہ کے لئے پیش آنے والی تھی اپنی خلافت حقہ کے زمانہ میں سچائی اور حق کا دروازہ کھول دیا اور ضلالت کے سیلاب پر ایک ایسا مضبوط بند لگا دیا کہ اگر اس زمانہ کے مولویوں کے ساتھ تمام جنیّات بھی شامل ہو جائیں تب بھی وہ اِس بند کو توڑ نہیں سکتے۔ سو ہم دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ حضرت ابوبکر کی جان پر ہزاروں رحمتیں نازل کرے جنہوں نے خدا تعالیٰ سے پاک الہام پاکر اِس بات کا فیصلہ کردیا کہ مسیح فوت ہوگیا ہے۔ یہ تین دلائل کافی ہیں پھر ایک اور دلیل ان دلائل ثلاثہ کو مدد دیتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر یہ امر سنت اللہ میں داخل ہوتا کہ کوئی شخص اتنی مُدّت تک آسمان پر بیٹھا رہے اور پھر زمین پر نازل ہو تو اِس کی کوئی اور نظیر بھی ہوتی کیونکہ خدا تعالیٰ کے سارے کام نظیر رکھتے ہیں تا انسانوں کے لئے تکلیف مَالَا یُطاق نہ ہو مثلاً آدم کو خدا نے مٹی سے پیدا کیا اور اب بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہزاروں کیڑے مکوڑے مٹی سے پیدا ہو رہے ہیں مگر قرآن شریفؔ نے اس رفع اور نزول کی کوئی نظیر بیان نہیں فرمائی۔ ہاں پہلی کتابوں میں اسی کا ہم شکل ایک مقدمہ ہے یعنی ایلیا کا دوبارہ دنیا میں آنا۔ لیکن اِس آمد ثانی کے معنے خود حضرت مسیح نے بیان فرمادیئے ہیں کہ اِس سے مراد یہ ہے کہ کوئی اور شخص حضرت ایلیا کی خو اور طبیعت پر دنیا میں آئے گا یہ جہالت ہے کہ ایسا سمجھا جائے کہ یہ قصّہ جھوٹا ہے کیونکہ اِس قصے پر دو قومیں جو باہم سخت دشمنی رکھتی ہیں اعتقاد رکھتی ہیں اور اب تک ملاکی نبی کی کتاب میں یہ پایا جاتا ہے پھر باطل کیونکر ہوسکتا ہے ؟ جس بات کو کروڑہا اِنسان اور پھر دو مخالف گروہ مانتے چلے آئے ہیں اور اُن کی کتابوں میں موجود ہے وہ امر کیونکر باطل ٹھہر سکتا ہے ؟ اس طرح تو تمام تواریخ سے امان اُٹھ جاتا ہے۔ ہاں اگریہ اعتراض ہوکہ مسیح تو کہتا ہے کہ