ڈوئی صاحب کی فراست نے معلوم کرلیا کہ یہ تحریریں باطل اور حاسد انہ خیالات ہیں۔ اِس لئے اُنہوں نے اُن تحریروں کو شامل مثل نہ کیا او ر ردّی کی طرح پھینک دیا اور جو ہماری طرف سے تحریریں گذری تھیں جن سے ثابت ہوتا تھا کہ محمد حسین نے مخالفانہ جوش میں کیسی بدزبانی اور فحش گوئی او ر قابلِ شرم تدبیروں سے کام لیا ہے وہ سب شامل مثل کردیں۔ غرض یہ خدا تعالیٰ کا فضل تھا کہ ان لوگوں نے میرے ہلا ک کرنے کے لئے
جس طرح پر اس آیت میں خدا تعالیٰ نے فقرات کو رکھا ہے اور بعض کو مقدم اور بعض کو مؤخر بیان کیا ہے اور اسی طرح پڑھنے کا حکم دیا ہے وہ ترتیب اسی بات کو چاہتی ہے کہ رفع اور تطہیر اور غلبہ سے پہلے حضرت مسیح کی وفات ہو جائے۔ اور اس کی تائید میں ایک اور آیت قرآن شریف کی ہے جو وہ بھی حضرت مسیح کی وفات کو ثابت کرتی ہے او ر وہ یہ ہے۔ 3۱۔ اس آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام صاف اقرار کرتے ہیں کہ عیسائی میرے مرنے کے بعد بگڑے ہیں میری زندگی میں ہرگز نہیں بگڑے۔ پس اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اب تک بجسم عنصری زندہ ہیں تو ماننا پڑے گا کہ عیسائی بھی اب تک اپنے سچے دین پر قائم ہیں اور یہ صریح باطل ہے۔ ایسا ہی حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ کا اِس آیت سے استدلال کرنا کہ3۲ صاف دلالت کرتا ہے کہ اُن کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے تھے کیونکہ اگر اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ پہلے نبیوں میں سے بعض نبی تو جناب خاتم الانبیاءؐ کے عہد سے پیشتر فوت ہوگئے ہیں مگر بعض اُن میں سے زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک فوت نہیں ہوئے تواِس صورت میں یہ آیت قابلِ استدلال نہیں رہتی کیونکہ ایک ناتمام دلیل جو ایک قاعدہ کلیہ کی طرح نہیں اور تمام افراد گزشتہ پر دائرہ کی طرح محیط نہیں وہ دلیل کے نام سے موسوم نہیں ہوسکتی۔ پھر اُس سے حضرت ابوبکر کااستدلال لغو ٹھہرتا ہے اور یاد رہے کہ یہ دلیل جو حضرت ابوبکر نے تمام گذشتہ نبیوں کی وفات پر پیش کی کسی صحابی سے اِس کا انکار مروی نہیں حالانکہ اُس وقت سب صحابی موجود تھے اور سب سن کر خاموش ہوگئے ۔ اِس سے ثابت ہے کہ اس پر صحابہ کااجماع ہوگیا تھا اور صحابہ کااجماع حجّت ہے جو کبھی ضلالت پر نہیں ہوتا۔ سوحضرت ابوبکرکے احسانات میں سے جو اِس اُمّت پر ہیں