جائے شکر تھا یا جائے شکایت ۔ لیکن محمد حسین پر کچھ بھی افسوس نہیں کیونکہ جس درجہ پر اُس نے اپنی عداوت اور کینہ کو پہنچایا ہے۔ اور جس مقدار تک اُس کے اندر میری نسبت بغض اور بد اندیشی کا مادہ جمع ہے اس کاتقاضا ہی یہی تھا کہ وہ ایسے ایسے خلاف واقعہ امور کی طرف مضطر ہوتا۔ غرض ان لوگوں نے جس قدر دشمنی کے جوش میں وہ سب تدبیریں سوچیں جو انسان اپنے مخالف کے تباہ کرنے کے لئے سوچ سکتا ہے۔ اور جس قدر شدّت عداوت کے وقت میں دنیا دار لوگ اندر ہی اندر منصوبے بنایا کرتے ہیں وہ سب بنائے اور زور لگانے میں کچھ بھی فرق نہ کیا اور میرے ذلیل اور ہلاک کرنے کے لئے ناخنوں تک زور لگایا اور مکّہ کے بے دینوں کی طرح کوئی تدبیر اٹھا نہیں رکھی۔ لیکن خدا تعالیٰ نے اس وقت سے بیس برس پہلے پیشگوئی مذکورہ بالا میں صاف لفظوں میں فرمادیا تھا کہ میں تجھے دشمنوں کے شر سے بچاؤں گا۔ لہٰذا اُس نے اپنے اس سچےّ وعدہ کے موافق مجھ کو بچایا۔ سوچنے کے لائق ہے کہ کیونکر انواع اقسام کی تدبیروں سے میرے پر حملے کئے گئے حتی کہ قتل کے جھوٹے مقدمات بنائے گئے اور ان مقدمات کے وقت نہ صرف محمدحسین نے پوشیدہ طور پر میرے مخالف تدبیریں سوچیں بلکہ کھلے کھلے طور پر پادریوں کا گواہ بن کر عدالت میں حاضر ہوااور پھر مسٹر جے۔ ایم ڈوئی صاحب کی عدالت
اور اِس خوف سے اللہ تعالیٰ نے مسیح کو تسلی بخشی اور ایک لمبی عمر جو اِنسان کے لئے قانونِ قدرت میں داخل ہے اس کا وعدہ دیا اور یہ فرمایا کہ تو اپنی طبعی موت سے فوت ہوگا۔ اب اس فیصلہ کے بعد دوسرا تنقیح طلب امر یہ ہے کہ آیا یہ وعدہ پورا ہوچکا یا ابھی حضرت مسیح زندہ ہیں سو یہ تنقیح بھی نہایت صفائی سے فیصلہ پاچکی ہے اور فیصلہ یہ ہے کہ اِس آیت شریفہ کی ترتیب صاف طور پر دلالت کر رہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں کیونکہ اگر وہ اب تک فوت نہیں ہوئے تو پھر اِس سے لازم آتا ہے کہ