امن و آسایش کے متعلق احسان کئے۔ اور سب سے زیادہ یہ کہ ہم پوری آزادی سےؔ فرائض دینی ادا کرنے لگے۔ پھر ایسا کون پاگل اور دیوانہ ہے کہ اس قدر احسانات دیکھ کر پھر نمک ّ*** کرے۔ ہم سچ سچ کہتے ہیں کہ ہمارے خدا نے ہمارے لئے اِس گورنمنٹ کو ایک پناہ بنا دیاہے۔ اور وہ سیلاب ظلم اور تعدّی جو جلد تر ہمیں ہلاک کرنا چاہتا تھا وہ اِس فولادی بند سے رُک گیا ہے۔ تو پھر یہ مقام
اس کے ہماری طرف سے دو جواب ہیں۔ (۱) اوّل یہ کہ خود صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس سے یہ معنے مروی ہیں کہ متوفّیک ممیتک یعنی حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ متوفّیک کے یہ معنے ہیں کہ میں تجھے وفات دوں گا۔ علاوہ اس کے جو شخص تمام احادیث اور قرآن شریف کا تتبّعکرے گا اور تمام لُغت کی کتابوں او ر ادب کی کتابوں کو غور سے دیکھے گا اس پر یہ بات مخفی نہیں رہے گی کہ یہ قدیم محاورہ لسان عرب ہے کہ جب خدا تعالیٰ فاعل ہوتا ہے اور انسان مفعول بہ ہوتا ہے تو ایسے موقعہ پر لفظ توفّی کے معنے بجز وفات کے اور کچھ نہیں ہوتے اور اگرکوئی شخص اِس سے انکار کرے تو اُس پر واجب ہے کہ ہمیں حدیث یا قرآن یا فن ادب کی کسی کتاب سے یہ دکھلاوے کہ ایسی صورت میں کوئی اور معنے بھی توفّی کے آجاتے ہیں۔ اور اگر ایسا ثبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ قدسیہ سے پیش کرسکے تو ہم بلاتوقف اُس کو پانسو روپے انعام دینے کو طیار ہیں۔ دیکھو حق کے اظہار کے لئے ہم کس قدر مال خرچ کرنا چاہتے ہیں پھر کیاوجہ ہے کہ ہمارے سوالات کا کوئی جواب نہیں دیتا؟
اگرسچائی پر ہوتے تو اِس سوال کا ضرور جواب دیتے اور نقد روپیہ پاتے۔ غرض جب فیصلہ ہوگیا کہ توفّی کے معنے موت ہیں یہی معنے حضرت ابن عباس کی حدیث سے معلوم ہوئے۔ اور ابن عباس کا قول جو صحیح بخاری میں مندرج ہے وہ قول ہے جس کو عینی شارح بخاری نے اپنی شرح میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوع کیاہے اور یہی معنے محاورات قرآن اورمحاورات احادیث میں سے اور نیز کلام بلغاء عرب کے تتبع سے ثابت ہوئے اور اِس کے سوا کچھ ثابت نہ ہوا تو پھر ماننا پڑا کہ یہ وعدہ جو اِس آیتؔ شریفہ میں مندرج ہے یہ حضرت مسیح کی موت طبعی کا وعدہ ہے اور اس میں حضرت مسیح کو یہ بشارت دی گئی ہے کہ وہ یہودی کہ جو اس فکر میں تھے کہ آنجناب کو بذریعہ صلیب قتل کردیں وہ قتل نہیں کرسکیں گے