تبرؔ کے نیچے تھے اس نے ہماری گردنیں اس سے باہر نکالیں۔ ہماری دینی آزادی بالکل روکی گئی تھی یہاں تک کہ ہم مجاز نہ تھے کہ بلند آواز سے بانگ نماز کہہ سکیں اِس محسن گورنمنٹ نے دوبارہ ہماری آزادی قائم کردی اور ہم پر بہتسے
اِس کی وجہ یہ ہے کہ ترتیب کا ملحوظ رکھنا بھی وجوہِ بلاغت میں سے ہے بلکہ اعلیٰ درجہ کی بلاغت یہی ہے جو حکیمانہ رنگ اپنے اندر رکھتی ہے۔ جس شخص کے کلام میں ترتیب نہیں ہوتی یا کم ہوتی ہے ایسے شخص کو ہم ہرگز بلیغ و فصیح نہیں کہہ سکتے۔ بلکہ اگر کوئی شخص حد سے زیادہ ترتیب کا لحاظ اُٹھادے تووہ ضرور دیوانہ اور پاگل ہوتا ہے کیونکہ جس کی تقریر منتظم نہیں اُس کے حواس بھی منتظم نہیںؔ *پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کا وہ پاک کلام جو بلاغت فصاحت کا دعویٰ کرکے تمام اقسام سچائی کے لئے بلاتا ہے ایسا اعجازی کلام اس ضروری حصہ فصاحت سے گرا ہوا ہو کہ اس میں ترتیب نہ پائی جائے۔یہ بات تو ہر ایک شخص مانتا ہے کہ اگرچہ ترکِ ترتیب جائز ہے لیکن اس میں کچھ کلام نہیں کہ اگر مثلاً دو کلام ہوں اور ایک ان میں سے علاوہ دوسرے مراتبِ فصاحت بلاغت کے ترتیبِ ظاہری کا بھی لحاظ رکھتا ہو اور دوسرا کلام اس درجہ فصاحت سے گرا ہوا ہو اور اس میں قدرت نہ ہو کہ سلسلہ ترتیب کو نباہ سکے تو بلاشبہ ایک فصیح او ر ادیب اور نقّاد کلام کا اس کلام کو بہت زیادہ درجہ فصاحت دے گا جو علاوہ دوسرے کمالاتِ فصاحت اور بلاغت کے یہ کمال بھی اپنے اندر رکھتا ہے یعنی اس میں ترتیب بھی موجود ہے اور اس سے زیادہ کوئی گواہ نہیں کہ قرآن کریم نے اوّل سے آخر تک صنعتِ ترتیب کو اختیار کیا ہے او ر باوجود اس کے نظم بدیع اور عبارت سلیس کو ہاتھ سے نہیں دیا او ر یہ اس کا ایک بڑا معجزہ ہے جو ہم مخالفین کے سامنے پیش کرتے ہیں اور اِسی صنعت ترتیب کی برکت سے ہزارہا نکات قرآن شریف کے معلوم ہوتے جاتے ہیں اور اگر یہ کہو کہ ترتیب کو تو ہم مانتے ہیں مگر توفّی کے معنے موت نہیں مانتے تو
* دیکھو خدا تعالیٰ کے نظام شمسی میں کیسی ترتیب پائی جاتی ہے اور خود انسان کی جسمانی ہیکل
کیسی ابلغ اور احسن ترتیب پر مشتمل ہے پھر کس قدر بے ادبی ہوگی اگر اُس احسن الخالقین کے کلمات پُر حکمت کو پراگندہ اور غیر منتظم اور بے ترتیب خیال کیاجائے۔ منہ