میں ایسی گورنمنٹ کی نسبت بغاوت کے خیالات ظاہر کرتا جس کے احسانات ہمارے سر پر ہیں۔ ہم اِس سلطنت کے عہد سے پہلے خوفناک حالت میں تھے اس نے پناہ دی۔ ہم سِکھّوں کے زمانہ میں ہر وقت ایک
میں *** ٹھہرے لیکن اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ اِس بات پر دلیل کیاہے کہ قرآن شریف میں اوّل سے آخر تک ظاہری ترتیب کا لحاظ رکھا گیا ہے بجز دو چار مقام کے جو بطور شاذ و نادر ہیں۔ تو یہ ایک سوال ہے کہ خود قرآن شریف پر ایک نظر ڈال کر حل ہوسکتا ہے۔ یعنی اس پر یہ دلیل کافی ہے کہ اگر تمام قرآن اوّل سے آخرتک پڑھ جاؤ تو بجز چند مقامات کے جو بطور شاذ و نادر کے ہیں باقی تمام قرآنی مقامات کو ظاہری ترتیب کی ایک زرّیں زنجیری میں منسلک پاؤگے اور جس طرح اُس حکیم کے افعال میں ترتیب مشہود ہو رہی ہے یہی ترتیب اس کے اقوال میں دیکھوگے اور یہ اِس بات پر کہ قرآن ظاہری ترتیب کوملحوظ رکھتا ہے ایسی پختہ اور بدیہی اور نہایت قوی دلیل ہے کہ اِس دلیل کو سمجھ کر اور دیکھ کر بھی پھر مخالفت سے زبان کو بند نہ رکھنا صریح بے ایمانی اور بددیانتی ہے۔ اگر ہم اِ س دلیل کو مبسوط طور پر اس جگہ لکھیں تو گویا تمام قرآن شریف کو اِس جگہ درج کرنا ہوگا اور اِس مختصر رسالہ میں یہ گنجائش نہیں۔ یہ تو ہم قبول کرتے ہیں کہ شاذ و نادر کے طور پر قرآن شریف میں ایک دو مقام ایسے بھی ہیں کہ جن میں مثلاً عیسیٰ پہلے آیا اور موسیٰ بعد میں آیا یا کوئی اور نبی متاخر جو پیچھے آنے والا تھا اُس کا نام پہلے بیان کیا گیا اور جو پہلا تھا وہ پیچھے بیان کیا گیا۔ لیکن یہ خیال نہیں کرنا چاہیئے کہ یہ چند مقامات بھی خالی از ترتیب ہیں بلکہ ان میں بھی ایک معنوی ترتیب ہے جو بیان کرنے کے سلسلہ میں بعض مصالح کی وجہ سے پیش آگئی ہے۔ لیکن اِس میں کچھ بھی شک نہیں کہ قرآن کریم ظاہری ترتیب کا اشد التزام*رکھتا ہے اور ایک بڑا حصّہ قرآنی فصاحت کااسی سے متعلق ہے۔
* قرآن شریف کی ظاہری ترتیب پر جو شخص دلی یقین رکھتا ہے اُس پر صدہا معارف کے دروازے
کھولے جاتے ہیں اور صدہا باریک در باریک نکات تک پہنچنے کے لئے یہ ترتیب اُس کو رہنما ہو جاتی ہے اور قرآن دانی کی ایک کنجی اُس کے ہاتھ میں آجاتی ہے گویا ترتیب ظاہری کے نشانوں سے قرآن خود اُسے بتلاتا جاتا ہے کہ دیکھو میرے اندر یہ خزانے ہیں لیکن جو شخص قرآن کی ظاہری ترتیب سے منکر ہے وہ بلاشبہ قرآن کے باطنی معارف سے بھی بے نصیب ہے۔ منہ