کمربستہ کرلی کہ ہماری گورنمنٹ محسنہ انگریزی کو ہر وقت یہ خلافِ واقعہ خبردیؔ کہ یہ شخص سرکار انگریزی کی نسبت اچھے خیالات نہیں رکھتا۔ چنانچہ ایک مُدّت تک وہ ایسا ہی کرتا رہا اور اُس نے خلاف واقعہ کئی امور میری نسبت اپنی اشاعۃ السنہ ہر ایک الزام سے پاک ثابت کردے گا اور تیرے معجزات تازہ کرے گا اور اس پیشگوئی میں یہ بھی اشارہ ہے کہ ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قتل نہیں ہوں گے اور آپ کا رفع الی السماء اپنی نبوت کے رُو سے آفتاب کی طرح چمکے گا کیونکہ ہزارہا اولیاء اِس اُمّت میں پیدا ہوں گے۔ اور اِس پیشگوئی میں صاف لفظوں میں بتلایا گیا ہے کہ حضرت مسیح اُس زمانہ سے پہلے وفات پا جائیں گے جبکہ وہ رسول مقبول ظاہر ہوگا جو ؔ مخالفوں کے اعتراضات سے اُن کے دامن کو پاک کرے گا۔ کیونکہ اِس آیت کریمہ میں لفّ نشر مرتب ہے۔ پہلے وفات کا وعدہ ہے پھر رفع کا پھر تطہیر کا اور پھر یہ کہ خدا تعالیٰ اُن کے متبعین کو ہر ایک پہلو سے غلبہ بخش کر مخالفوں کو قیامت تک ذلیل کرتا رہے گا۔ اگر اس ترتیب کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس میں بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ ترتیب جو واقعاتِ خارجیہ نے ثابت کردی ہے ہاتھ سے جاتی رہے گی اور کسی کا اختیار نہیں ہے کہ قرآنی ترتیب کو بغیر کسی قوی دستاویز کے اُٹھادے کیونکہ ایسا کرنا گو یا یہودیوں کے قدم پر قدم رکھنا ہے۔ یہ تو سچ ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ حرف واؤ کے ساتھ ہمیشہ ترتیب کا لحاظ واجب ہو۔ لیکن اس میں کیا شک ہے کہ خدا تعالیٰ اِس آیت میں اختلاط کرتا ہے اور اجنبی عورتوں سے باتیں کرتا ہے ۔چنانچہ نادان یہودیوں کے ؔ یہ اعتراضات آج تک ہیں کہ یسوع نے جس کو عیسائی اپنا خدا قرار دیتے ہیں ناپاک عورتوں سے اپنے تئیں دور نہیں رکھا بلکہ جب ایک زنا کار عورت عطر لے کراُس کے پاس آئی تو اُس کو دانستہ یہ موقع دیا کہ وہ حرام کی کمائی کا عطر اُس کے سر کو ملے اور اُس کے پیروں پر اپنے زینت کردہ بال رکھے اور ایسا کرنا اُس کو روا نہ تھا۔ ایسا ہی اُن کا یہ بھی اعتراض ہے کہ مسیح الہامی شرط کے موافق نہیں آیا کیونکہ ملا کی نبی نے پیشگوئی کی تھی کہ مسیح نہیں آئے گا جب تک کہ ایلیا نبی دوبارہ دنیا میں نہ آجائے۔ پس جس حالت میں ایلیا تو اب تک دُنیا میں نہیں آیا تو مسیح کیونکر آگیا ؟ یہ وہ اعتراض ہیں جو یہودیوں کی کتابوں میں لکھے ہیں جن میں سے بعض میرے پاس موجود ہیں۔ پس خدا تعالیٰ اِس آیت میں وعدہ فرماتا ہے کہ ان تمام الزامات سے میں تجھے بری