چھٹی قسم کی ذلّت پر میاں ثناء اللہ کی معرفت اِطلاع ہوئی۔ اور رہی یہ بات کہ محمدحسین کا کسی ریاست میں وظیفہ مقرر ہوگیاہے۔ یہ ایسا امر ہے کہ اِس کو کوئی دانشمند عزت قرار نہیں دے گا۔ ان ریاستوں میں تو ہر ایک قسم کے لوگوں کے وظیفے مقرر ہیں جن میں سے بعض کے ناموں کا ذکر بھی قابل شرم ہے۔ پھر اگر محمد حسین کا وظیفہ بھی کسی نے مقرر کردیا تو کس عزت کاموجب ہوا بلکہ اِس جگہ تو وہ فقرہ یاد آتا ہے کہ بئس الفقیر علٰی باب الامیر۔ غرض یہ پیشگوئی جومحمد حسین اور اُس کے دو رفیقوں کی نسبت تھی اعلیٰ درجہ پر پوری ہوگئی۔ ہم قبول کرتے ہیں جو ان لوگوں کی اس قسم کی ذلّت نہیں ہوئی جو ادنےٰ طبقہ کے لوگوں کی ذلّت ہوتی ہے مگر پیشگوئی میں پہلے سے اس کی تصریح تھی کہ مثلی ذلّت ہوگی جیسا کہ پیشگوئی کا یہ فقرہ ہے کہ جزاء سیّءۃ بمثلھا و ترھقھم ذلّۃ یعنی جس قسم کی ذلّت ان لوگوں نے پہنچائی اسی قسم کی ذلّت ان کو پہنچے گی۔ اب ہم اس سوال کو زٹلی اور تبتی سے تو نہیں پوچھتے کیونکہ اُن کی ذلّت اور عزت دونوں طفیلی ہیں مگر جو شخص چاہے محمد حسین کو قرآن شریف ہاتھ میں دے کر حلفًاپوچھ لے کہ یہ مثلی ذلّت جو الہام سے مفہوم ہوتی ہے یہ تمہیں اور تمہارے رفیقوں کو پہنچ گئی یا نہیں؟ بے حیائی سے بات کو حد سے بڑھانا کسی شریف انسان کاکام نہیں ہے بلکہ گندوں اور سفلوں کا کام ہے لیکن ایک منصف مزاج سوچ سکتا ہے کہ الہام الٰہی میں یہ تو نہیں بتلایا گیا تھا کہ وہ ذلّت کسی زدو کوب کے ذریعہ سے ہوگی یا کسی اور جسمانی ضرر سے یا خون کرنے سے وہ ذلّت پہنچائی جائے گی بلکہ الہام الٰہی کے صاف اور صریح یہ لفظ تھے کہ ذلّت صرف اِس قسم کی ہوگی جس قسم کی ذلّت ان لوگوں نے پہنچائی ۔ الہام موجود ہے ہزاروں آدمیوں میں چھپ کر شایع ہوچکا ہے۔ پھر یہودیوں کی طرح اس میں تحریف کرنا اُس بے حیا انسان کاکام ہے جس کو