مقدمہ کے بعد جو کچھ خدا تعالیٰ کے فضل او رکرم نے میری طرف ایک دنیا کو رجوع دیا اور دے رہا ہے۔ یہ ایک ایسا امر ہے جو اُس شخص کی اِس میں صریح ذلّت ہے جو اس کے برخلاف میرے لئے چاہتا تھا ۔ ہاں میاں ثناء اللہ کے تین اعتراض اور باقی ہیں اور وہ یہ کہ وہ پرچہ اخبار عام میں یہ کہتا ہے ’’کہ محمد حسین کو چار مربع زمین مل گئی ہے اور کسی ریاست سے اس کا کچھ وظیفہ مقرر ہوگیا ہے۔ اور مسٹر جے ایمؔ ڈوئی صاحب نے اُس کی منشاء کے موافق مقدمہ کیا ہے۔‘‘ تیسرے اعتراض کے جواب کی کچھ ضرورت نہیں کیونکہ ابھی ہم لِکھ چکے ہیں کہ یہ دعویٰ تو سراسر ترکِ حیا ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ محمد حسین کے منشاء کے موافق مقدمہ ہوا ہے۔ خود محمد حسین کو قسم دے کر پوچھنا چاہیئے کہ کیا اُس کا منشاء تھا کہ آیندہ وہ کافر اور دجّال او ر کاذب کہنے سے باز آجائے اور کیا اُس کا یہ منشاء تھا کہ آیندہ گالیوں اور فحش کہنے اور کہانے سے باز آجائے؟ پھر کون منصف اور صاحبِ حیا کہہ سکتا ہے کہ یہ مقدمہ محمد حسین کے منشاء کے موافق ہوا ہاں اگر یہ اعتراض ہوکہ ہمیں بھی آیندہ موت اور ذلّت کی پیشگوئی کرنے سے روکا گیا ہے۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ یہ ہماری کارروائی خود اُس وقت سے پہلے ختم ہوچکی تھی کہ جب ڈوئی صاحب کے نوٹس میں ایسا لکھا گیا بلکہ ہم اپنے رسالہ انجام آتھم میں بتصریح لکھ چکے ہیں کہ ہم ان لوگوں کو آیندہ مخاطب کرنا بھی نہیں چاہتے جب تک یہ ہمیں مخاطب نہ کریں اور ہم بدل بیزار اور متنفر ہیں کہ ان لوگوں کانام بھی لیں چہ جائیکہ ان کے حق میں پیشگوئی کرکے اسی قدر خطاب سے ان کو کچھ عزت دیں۔ ہمارا مدعا تین فرقوں کی نسبت تین پیشگوئیاں تھیں سو ہم اپنے اِس مدعا کو پورا کرچکے ۔ اب کچھ بھی ہمیں ضرورت نہیں کہ ان لوگوں کی موت اور ذلّت کی نسبت پیشگوئی کریں اور یہ الزام کہ آیندہ عمومًاالہامات کی اشاعت کرنے