نہ کریں کہ بے عزتی تب ہوتی تھی کہ جب ایسا ظہور میں آتا۔ ہم قبول کرتے ہیں کہ انسانوں کی مختلف طبقوں کے لحاظ سے بے عزتی بھی مختلف طور پر ہے اور ہر ایک کے لئے وجوہ ذلّت کے جدا جدا ہیں لیکن ہمیں کیا خبر ہے کہ آپ لوگوں نے مولوی محمد حسین کو کس طبقہ کاانسان قرار دیا ہے اور اُس کی ذلت کن امور میں تصور فرمائی ہے ۔ ہماری دانست میں تو میاں ثناء اللہ کو مولوی محمد حسین صاحب سے کوئی پوشیدہ کینہ ہے کہ وہ اب تک ان کی اس درجہ کی ذلّت پر راضی نہیں ہوئے جو شریفوں اور معززوں اور اہل علم کے لئے کافی ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ دنیا میں ذلّت تین قسم کی ہوتی ہے ۔ ایک تو جسمانی ذلّت جس کے اکثر جرائم پیشہ تختہ مشق ہوتے رہتے ہیں۔ دوسرے اخلاقی ذلّت۔ یہ تب ہوتی ہے جبکہ کسی کی اخلاقی حالت نہایت گندی ثابت ہو اور اس پر اُس کو سرزنش ہو۔ تیسرے علمی پردہ دری کی ذلّت جس سے عالمانہ حیثیت خاک میں ملتی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اخلاقی ذلّت ظہور میں آچکی ہے اگر کسی کو شک ہے تو اُس مثل کو ملاحظہ کرے جو مسٹر جے ۔ ایم ڈوئی صاحب کی عدالت میں طیار ہوئی ہے۔ ایساہی عالمانہ حیثیت کیؔ ذلت ظہور میں آچکی او ر عجبت کے صلہ پر جو اعتراض محمد حسین صاحب نے کیا ہے اور پھر جو ڈسچارج کا ترجمہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا ہے کہ ڈسچارج کا ترجمہ بَری نہیں ہے۔ اِن دونوں اعتراضوں سے صاف طور پر کھل گیا کہ علاوہ کمالاتِ نحودانی اور حدیث دانی کے آپ کو قانونِ انگریزی میں بھی بہت کچھ دخل ہے اور یاد رہے کہ دشمن کی ذلّت ایک قسم کی یہ بھی ہوتی ہے کہ اُس کے مخالف کو جس کے ذلیل کرنے کے لئے ہردم تدبیریں کرتا اور طرح طرح کے مکر استعمال میں لاتا ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے عزت مل جائے۔ سو اس قسم کی ذلّت بھی ظاہر ہے کیونکہ ڈوئی صاحب کے