جو مولوی محمد حسین جیسی شان اور عزت کا آدمی ہواُس کی ذلّت کس قسم کی بے عزتی میں متصوّر ہے۔ اب تک تو ہم یہی سمجھے بیٹھے تھے کہ شریف اور معزز اِنسانوں کی عزت نہایت نازک ہوتی ہے اور تھوڑی سی کسر شان سے عزت میں فرق آجاتا ہے۔ مگر اب میاں ثناء اللہ صاحب کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اِن تمام قابل شرم امور سے مولوی صاحب موصوف کی عزت میں کچھ بھی فرق نہیں آیا۔ پس اِس صورت میں ہم اِس انکار کا کچھ بھی جواب نہیں دے سکتے جب تک کہ میا ں ثناء اللہ کھول کر ہمیں نہ بتلاویں کہ کس قسم کی ذلّت ہونی چاہیئے تھی جس سے موحدین کے اِس ایڈوکیٹ کی عزت میں فرق آجاتا ۔ اگر وہ معقول طور پر ہمیں سمجھا دیں گے کہ شریفوں اور معززوں اور ایسے نامی علماء کی ذلّت اِس قسم کی ہونی ضروری ہے تو اِس صورت میں اگر ہماری پیشگوئی کے رُو سے وہ خاص ذلّت نہیں پہنچی جو پہنچنی چاہیئے تھی تو ہم اقرار کر دیں گے کہ ابھی پیشگوئی پورے طورپر ظہور میں نہیں آئی لیکن اب تک تو ہم مولوی محمد حسین کی عالمانہ حیثیت پر نظر کرکے یہی سمجھتے ہیں کہ پیشگوئی ان کی حیثیت کے مطابق اور نیز الہامی* شرط کے مطابق پور ے طور پر ظہور میں آچکی۔ مُدت ہوئی کہ ہمیں ان تمام مولویوں سے ترک ملاقات ہے ہمیں کچھ بھی معلوم نہیں کہ یہ لوگ اپنی بے عزتی کس حد کی ذلت میں خیال کرتے ہیں اور کس حد کی ذلّت کو ہضم کر جاتے ہیں۔ میاں ثناء اللہ کو اعتراض کرنے کا بیشک حق ہے مگر ہم جواب دینے سے معذور ہیں جب تک وہ کھول کر بیان
* الہامی شرط یہ تھی کہ محمد حسین اور اُس کے دورفیقوں کی ذلّت صرف اسی قسم کی ہوگی جس قسم کی
ذلّت اُنہوں نے پہنچائی تھی جیسا کہ الہام مندرجہ اشتہار ۲۱؍ نومبر ۱۸۹۸ ء کے اِس فقرہ سے ظاہر ہے کہ جزاء سیّءۃ بمثلھا وترھقھم ذلّۃ ۔ پس الہامی شرط کو نظرانداز کرکے اعتراض اٹھانا نادان متعصبوں کا کام ہے نہ عقلمندوں اور منصفوں کا ۔ منہ