ہماری کچھ بھی ذلّت نہیں ہوئی۔ لیکن جو شخص منصف ہوکر ان تمام واقعات کو پڑھے گا اُس کو تو بہرحال ماننا پڑے گا کہ بلاشبہ ذلّت ہوچکی۔ اِس جگہ ہمیں افسوس سے یہ بھی لکھنا پڑا ہے کہ پرچہ اخبار عام ۲۳؍ نومبر ۱۸۹۹ ؁ء میں ایک شخص ثناء اللہ نام امرتسری نے یہ مضمون چھپوایا ہے کہ’’ اب تک مولوی محمد حسین کی کچھ بھی ذِلت نہیں ہوئی‘‘ ۔ ہم حیران ہیں کہ اِس صریح خلاف واقعہ امر کا کیاجواب لکھیں۔ ہم نہیں جانتے کہ ثناء اللہ صاحب کے خیال میں ذلّت کس کو کہتے ہیں۔ ہاں ہم یہ قبول کرتے ہیں کہ ذلّت کئی قسم کی ہوتی ہے اور انسانوں کی ہر ایک طبقہ کے مناسب حال ایک قسم کی ذلّت ہے۔ مثلاً زمینداروں میں سے ایک وہ ہیں جو فقط سرکاری دستک جاری ہونے سے اپنی ذلّت خیال کرتے ہیں اور ان کے مقابل پر اس قسم کے زمیندار بھی دیکھے جاتے ہیں کہ قسط مال گذاری بروقت ادا نہ ہونے کی وجہ سے تحصیل کے چپراسی ان کو پکڑ کر لے جاتے ہیں اور بوجہ نہ ادائیگی معاملہ کے سخت گوشمالی کرتے ہیں بلکہ بعض اوقات دو چار جوتے اُن کو مار بھی دیتے ہیں اور وہ زمیندار ہنسی خوشی سے مار کھا لیتے ہیں اور ذرہ خیال نہیں کرتے کہ کچھ بھی اُن کی بے عزتی ہوئی ہے اور اُن سے بھی زیادہ بعض شریر چوہڑوں اورچماروں اور ساھنسیوں میں سے ایسے ہوتے ہیں کہ جو جیل خانہ میں جاتےؔ ہیں اور چوتڑوں پر بید بھی کھاتے ہیں اور باایں ہمہ کبھی نہیں سمجھتے کہ ہماری عزت میں کچھ بھی فرق آیا ہے بلکہ جیل میں ہنستے رہتے اور گاتے رہتے ہیں گویا ایک نشے میں ہیں۔ اب چونکہ عزتیں کئی قسم کی اور ذلتیں بھی کئی قسم کی ہیں اس لئے یہ بات میاں ثناء اللہ سے پوچھنے کے لائق ہے کہ وہ کس امر کو شیخ محمد حسین کی ذلّت قرار دیتے ہیں اور اگر اتنی قابلِ شرم باتوں میں سے جو بیچارے محمد حسین کو پیش آئیں اب تک اُس کی کچھ بھی ذلّت نہیں ہوئی تو ہمیں سمجھا ویں کہ وہ کونسی صورت تھی جس سے اُس کی ذلّت ہوسکتی اور بیان فرماویں کہ