اور پھر وہ گواہوں کی شہادت سے اپنی صفائی ثابت کرے اور استغاثہ کا ثبوت ڈیفنس کے ثبوت سے ٹوٹ جائے تو اِس صورت میں ہر ایک شریر کو آزادی ہوگی کہ ایسی تمام عورتوں پر زنا کا الزام لگاوے جنہوں نے معتمد گواہوں کے ذریعہ سے عدالت میں ثابت نہیں کردیا کہ وہ زانیہ نہیں ہیں خواہ وہ رسولوں او ر نبیوں کی عورتیں ہوں اورخواہ صحابہ کی اور خواہ اولیاء اللہ کی اور خواہ اہل بیت کی عورتیں ہوں اور ظاہرہے کہ آیت یرم بہٖ بریْءًا میں بری کے لفظ کے ایسے معنے کرنے صاف الحاد ہے جو ہرگز خدا تعالیٰ کا منشاء نہیں ہے بلکہ بدیہی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں بری کے لفظ سے خدا تعالیٰ کا یہی منشاء ہے کہ جو مستور الحال لوگ ہیں خواہ مرد ہیں خواہ عورتیں ہیں جن کاکوئی گناہ ثابت نہیں وہ سب بری کے نام کے مستحق ہیں اور بغیر ثبوت اُن پر کوئی تہمت لگانا فسق ہے جس سے خدا تعالیٰ اِس آیت میں منع فرماتا ہے اور اگر کسی کو نبیوں اور رسولوں کی کچھ پرواہ نہ ہو اور اپنی ضد سے باز نہ آوے تو پھر ذرا شرم کرکے اپنی عورتوں کی نسبت ہی کچھ انصاف کرے کہ کیا اگر اُن پر کوئی شخص اُن کی عِفّت کے مخالف کوئی ایسی ناپاک تہمت لگاوے جس کاکوئی ثبوت نہ ہو تو کیاوہ عورتیں آیت یرم بہ بریْءًاکی مصداق ٹھہرکر بری سمجھی جاسکتی ہیں اور ایسا تہمت لگانے والا سزاکے لائق ٹھہرتا ہے۔ یا وہ محض اس حالت میں بری سمجھی جائیں گی جبکہ وہ اپنی صفائی اور پاک دامنی کے بار ے میں عدالت میں گواہ گذرانیں او رجب تک وہ بذریعہ شہادتوں کے اپنی عفت کا عدالت میں ثبوت نہ دیں تب تک جو شخص چاہے اُن کی عفت پر حملہ کیاکرے اور اُن کو غیر بری قرار دے اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ نے آیت موصوفہ میں بارِ ثبوت تہمت لگانے والے پر رکھا ہے۔اور جب تک تہمت لگانے والا کسی گناہ کو ثابت نہ کرے تب تک تمام مردوں اورعورتوں کو بَری کہلانے کے مستحق ٹھہرایا ہے۔ پس قرآن اور زبانِ عرب کے رُو سے بَری ؔ کے معنے ایسے وسیع ہیں کہ جب تک کسی پر کسی