مکابرہ کی راہ سے یہ کہے کہ اس جگہ بری کے لفظ سے وہ شخص مراد ہے جو مجرم ثابت ہونے کے بعد اپنی صفائی کے گواہوں کے ذریعہ سے اپنی بریت ظاہرکرے ۔ تو ایسا خیال بدیہی طور پر باطل ہے کیونکہ اگر خدا تعالیٰ کابَری کے لفظ سے یہی منشاء ہے تو اس سے یہ خرابی پیدا ہوگی کہ اِس آیت سے یہ فتویٰ ملے گا کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ایسے شخص پر جس کا گناہ ثابت نہیں۔ کسی گناہ کی تہمت لگانا کوئی جرم نہیں ہوگا۔ گو وہ مستور الحال شریفوں کی طرح زِندگی بسر کرتا ہی ہو اور صرف یہ کسر ہو کہ ابھی اُسؔ نے بے قصور ہونا عدالت میں حاضر ہوکر ثابت نہیں کیا۔ حالانکہ ایسا سمجھنا صریح باطل ہے اور اس سے تمام تعلیم قرآن شریف کی زیروزبر ہو جاتی ہے کیونکہ اِس صورت میں جائز ہوگا کہ جو لوگ مثلاً ایسی مستور الحال عورتوں پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں جنہوں نے عدالت میں حاضر ہوکر اس بات کا ثبوت نہیں دیا کہ وہ ہر قسم کی بدکاری سے مدّت العمر محفوظ رہے ہیں وہ کچھ گناہ نہیں کرتے اور اُن کو روا ہے کہ مستور الحال عورتوں پر ایسی تہمتیں لگایا کریں حالانکہ ایسا خیال کرنا اِس مندرجہ ذیل آیت کے رُو سے صریح حرام اور معصیت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ 33 3 ۱؂ یعنی جو لوگ ایسی عورتوں پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں جن کا زنا کار ہونا ثابت نہیں ہے بلکہ مستور الحال ہیں اگر وہ لوگ چار گواہ سے اپنے اس الزام کو ثابت نہ کریں توان کو اَسّی دُرّے مارنے چاہیئیں۔ اب دیکھو کہ ان عورتوں کانام خدا نے بری رکھا ہے جن کا زانیہ ہونا ثابت نہیں۔ پس بریکے لفظ کی یہ تشریح بعینہٖ ڈسچارج کے مفہوم سے مطابق ہے کیونکہ اگر بری کا لفظ جو قرآن نے آیت یرم بہٖ بریْءًا میں استعمال کیا ہے صرف ایسی صورت پر بولا جاتا ہے کہ جبکہ کسی کومجرم ٹھہراکر اُس پر فرد قرار داد جرم لگائی جائے