بلکہ جس پر جرم ثابت نہ ہوسکے اُس کا نام ڈسچارج ہے اور اِس اعتراض سے محمد حسین کی غرض یہ تھی کہ تا لوگوں پر یہ ظاہر کرے کہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی لیکن جیسا کہ ہم اِسی کتاب کے صفحہ۸۱ میں تحریر کرچکے ہیں ۔ یہ اُس کی طرف سے محض افترا تھا اور دراصل ڈسچارج کا ترجمہ بری ہے اور کچھ نہیں اور اس نے عقل مندوں کے نزدیک بری کے انکار سے اپنی بڑی پردہ دری کرائی کہ اس بات سے انکار کیا کہ ڈسچارج کا ترجمہ بری نہیں ہے۔چنانچہ اسی صفحہ مذکورہ یعنی صفحہ اکاسی۸۱ میں بہ تفصیل میں نے لکھ دیا ہے کہ انگریزی زبان میں کسی کو جرم سے بَری سمجھنے یا بَری کرنے کے لئے دو لفظ استعمال ہو تے ہیں۔ (۱) ایک ڈسچارج ۔ (۲) دوسرے ایکءِٹ ۔ ڈسچارج اُس جگہ بولا جاتا ہے کہ جہاں حاکم مجوز کی نظر میں جرم کا ابتدا سے ہی کچھ ثبوت نہ ہو او رتحقیقات کے تمام سلسلہ میں کوئی ایسی بات پیدا نہ ہو جو اُس کو مجرمؔ ٹھہرا سکے اور فرد قرار داد جرم قائم کرنے کے لائق کرسکے۔ غرض اس کے دامن عصمت پر کوئی غبارنہ پڑسکے اور بوجہ اس کے کہ جرم کے ارتکاب کا کچھ بھی ثبوت نہیں ملزم کو چھوڑا جائے۔ اور ایکئٹ اُس جگہ بولاجاتا ہے جہاں اوّل جرم ثابت ہو جائے اور فرد قرار داد جرم لگائی جائے اور پھر مجرم اپنی صفائی کا ثبوت دے کر اس الزام سے رہائی پائے۔ غرض ان دونوں لفظوں میں قانونی طور پر فرق یہی ہے کہ ڈسچارج وہ بریّت کی قسم ہے کہ جہاں سرے سے جرم ثابت ہی نہ ہوسکے۔ اور ایکئٹ وہ بریت کی قسم ہے کہ جہاں جرم تو ثابت ہو جائے اور فرد قرارداد بھی لگ جائے مگر آخر میں ملزم کی صفائی ثابت ہوجائے اور عربی میں بریّت کا لفظ ایک تھوڑے سے تصرّف کے ساتھ ان دونوں مفہوموں پر مشتمل ہے یعنی جب ایک ملزم ایسی حالت میں چھوڑا جائے کہ اُس کے دامنِ عصمت پر کوئی دھبّا جرم کا لگ نہیں سکااور وہ ابتدا سے کبھی اس نظر سے دیکھا ہی نہیں گیا کہ وہ مجرم ہے