کی عادت رکھتا ہے بلکہ ایک شریف تو اِس خجالت سے جیتا ہی مر جاتا ہے کہ حاکم مجاز عدالت کی کرسی پر اُس کو یہ کہے کہ یہ کیا گندہ طریق ہے جو تو نے اختیار کیا۔ اور ان کارروائیوں کا نتیجہ ذلّت ہونا یہ تو ایک ادنیٰ امر ہے۔ خود پولیس کے افسر جنہوں نے مقدمہ اُٹھایا تھا اُن سے پوچھنا چاہیئے کہ اُس کا رروائی کے دوران میں جبکہ وہ محمد حسین اور جعفرز ٹلی کی گندہ زبانی کے کاغذات پیش کر رہے تھے کیامیری گندہ زبانی کا بھی کوئی کاغذ اُن کو ملا جس کو اُنہوں نے عدالت میں پیش کیا۔ اور چاہو تو محمد حسین کو حلفاً پوچھ کر دیکھ لو کہ کیا جو واقعات عدالت میں تم پر گذرے اور جب کہ عدالت نے تم سے سوالات کئے کہ کیا یہ گندی تحریریں تمہاری تحریریں ہیں اور کیا جعفرزٹلی سے تمہارا کچھ تعلق ہے یا نہیں۔ تو ان سوالات کے وقت تمہارے دِل کا کیا حال تھا۔ کیا اُس وقت تمہارا دِل حاکم کے ان سوالات کو اپنی عزت سمجھتا تھا یا ذلّت سمجھ کر غرق ہوتا جاتا تھا۔ اگر اتنے واقعات کے جمع ہونے سے جو ہم لکھ چکے ہیں پھر بھی ذلّت نہیں ہوئی اور عزت میں کچھ بھی فرق نہیں آیا تو ہمیں اقرار کرنا پڑے گا کہ آپ لوگوں کی عزت بڑی پکی ہے۔ پھر ماسوا اِس کے ۲۱؍ نومبر ۱۸۹۸ ء کے اشتہار کی میعاد کے اندر کئی اور ایسے امور بھی ظاہر ہوئے ہیں جن سے بلاشبہ مولوی محمد حسین صاحب کی عالمانہ عزّت میں اِس قدر فرق آیا ہے کہ گویا وہ خاک میں مل گئی ہے۔ازا نجملہ ایک یہ ہے کہ مولوی صاحب موصوف نے پرچہ پیسہ اخبار اور اخبار عام میں کمال حق پوشی کی راہ سے یہ شائع کردیا تھا کہ وہ مقدمہ جوپولیس کی رپورٹ پر مجھ پر اور اُن پر دائر کیا گیا تھا۔جو ۲۴؍ فروری ۱۸۹۹ ء میں فیصلہ ہوا اس میں گویا یہ عاجز بَری نہیں ہوا بلکہ ڈسچارج ہوا اور بڑے زور شور سے یہ دعویٰ کیا تھا کہ فیصلہ میں مسٹر ڈوئی صاحب کی طرف سے ڈسچارج کا لفظ ہے اور ڈسچارج بری کو نہیں کہتے