لکھا گیاہے۔ یعضّ الظّالم علٰی یدیہ ویُوثق۔ اور اس فقرہ کے معنے اسی رسالہ حقیقت المہدی کے صفحہ ۱۲ کی اخیر سطر اور صفحہ ۱۳ کی پہلی سطر میں یہ بیان کئے گئے ہیں۔ ظالم اپنے ہاتھ کاٹے گا اور اپنی شرارتوں سے روکا جائے گا۔اب دیکھو کہ اِس تشریح میں صاف بتلایا گیا ہے کہ ذلّت کس قسم کی ہوگی یعنی یہ ذلّت ہوگی کہ محمد حسین اور جعفرز ٹلی اور ابوالحسن تبتیاپنی گندی اور بے حیائی کی تحریروں سے روکے جائیں گے اور جو سلسلہ اُنہوں نے گالیاں دینے اور بے حیائی کے بے جا حملوں اور ہماری پرائیویٹ زندگی اورخاندانی تعلقات کی نسبت نہایت درجہ کی کمینہ پن کی شرارت اور بدزبانی اور افترا اور جھوٹ سے شائع کیا تھاوہ جبراً بند کیا جائے گا۔ اب سوچو کہ کیاوہ سلسلہ بند کیا گیا یا نہیں اور کیا وہ شیطانی کارروائیاں جو ناپاک زِندگی کاخاصہ ہوتی ہیں جن کی بے جا غلّو سے پاک دامن بیویوں آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر گندہ زبانی کے حملے کرنے کی نوبت پہنچ گئی تھی ۔ کیا یہ پلید اور بے حیائی کے طریق جو محمد حسین اور اُس کے دوست جعفرز ٹلی نے اختیار کئے تھے حاکم مجاز کے حکم سے روکے گئے یا نہیں اور کیا یہ گندہ زبانی کی عادت جس کو کسی طرح یہ لوگ چھوڑنا نہیں چاہتے تھے چھڑائی گئی یا نہیں پس ایک عقلمند انسان کے لئے یہ ذلّت کچھ تھوڑی نہیں کہ اس کی خلافِ تہذیب اور بے حیائی اور سفلہ پن کی عادات کے کاغذات عدالت میں پیش کئے جائیں اور پڑھے جائیں اور عام اجلاس میں سب پر یہ بات کھلے اور ہزارہا لوگوں میں شہرت پاوے کہ مولوی کہلا کر اِن لوگوں کی یہ تہذیب اور یہ شائستگی ہے ۔ اب خود سوچ لو کہ کیا اِس حد تک کسی شخص کی گندی کارروائیاں، گندے عادات، گندے اخلاق حکام او رپبلک پر ظاہر ہونا کیا یہ عزّ ت ہے یا بے عزتی ؟ اور کیا ایسے نفرتی اور ناپاک شیوہ پر عدالت کی طرف سے مواخذہ ہونا یہ کچھ سرافرازی کا