اور آپ ہی فتویٰ طیار کیا اور آپ ہی حکام کے خوف سے منسوخ کردیا اور ساتھ ہی جعفرزٹلی وغیرہ کی قلمیں ٹوٹ گئیں۔ اور باایں ہمہ رسوائی پھر محمد حسین نے اپنے دوستوں کے پاس یہ ظاہر کیاکہ فیصلہ میری منشاء کے موافق ہوا ہے۔ لیکن سوچ کر دیکھو کہ کیامحمد حسین کا یہی منشاء تھا کہ آیندہ مجھے کافر نہ کہے اور تکذیب نہ کرے اور ان باتوں سے توبہ کرکے اپنا منہ بند کرلے اور کیا جعفرز ٹلی یہ چاہتا تھا کہ اپنی گندی تحریروں سے باز آجائے ؟ پس اگر یہ وہی بات نہیں جو اشتہار ۲۱؍ نومبر ۱۸۹۸ ؁ء کی پیشگوئی پوری ہوگئی اور خدا نے میرے ذلیل کرنے والے کو ذلیل کیا ہے تو اور کیا ہے؟ جس شخص نے اپنے رسالوں میں یہ عہد شائع کیا تھاکہ میں اس شخص کو مرتے دم تک کافر اور دجّال کہتا رہوں گا جب تک وہ میرا مذہب قبول نہ کرے۔ تو اِس میں اُس کی کیا عزّت رہی جو اس یہ بھی ہو جاتا ہے کہ وہ اس ولی اللہ کی ہر حالت میں مخالفت کرتارہتاہے جو سرچشمۂ نبوت سے پانی پیتا ہے جس کو سچائی پر قائم کیا جاتا ہے۔ سو چونکہ اُس کی عادت ہو جاتی ہے کہ خواہ نخواہ ہر ایک ایسی ؔ سچائی کوردّ کرتاہے جو اس وَلی کے منہ سے نکلتی ہے اور جس قدر اس کی تائید میں نشان ظاہر ہوتے ہیں یہ خیال کرلیتا ہے کہ ایسا ہونا جھوٹوں سے ممکن ہے۔ اِس لئے رفتہ رفتہ سلسلۂ نبوت بھی اُس پر مشتبہ ہو جاتا ہے۔ لہٰذا انجام کار اس مخالفت کے پردہ میں اس کی ایمانی عمارت کی اینٹیں گرنی شروع ہو جاتی ہیں یہاں تک کہ کسی دن کسی ایسے عظیم الشّان مسئلہ کی مخالفت یانشان کاانکار کر بیٹھتا ہے جس سے ایمان جاتارہتاہے ہاں اگر کسی کاکوئی سابق نیک عمل ہو جو حضرت احدیّت میں محفوظ ہو توممکن ہے کہ آخرکار عنایت ازلی اُس کو تھام لے اور وہ رات کو یا دن کو یکدفعہ اپنی حالت کا مطالعہ کرے یا بعض ایسے اُمور اُس کی آنکھ روشن کرنے کے لئے پیدا ہو جائیں جن سے یکدفعہ وہ خوابِ غفلت سے جاگ اُٹھے۔ وذالک فضل اللّٰہ یُؤتیہ من یشاء واللّٰہ ذو الفضل العظیم ۔ منہ