کہ میں کسی مسلمان کو کافر نہیں جانتا ہاں یہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ جو شخص مسلمان ہو کر ایک سچے ولی اللہ کے دشمن بن جاتے ہیں اُن سے نیک عملوں کی توفیق چھین لی جاتی ہے اور دن بدن اُن کے دِل کا نور کم ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ ایک دِن چراغِ سحری کی طرح گل ہو جاتا ہے۔ سوؔ یہ میراعقیدہ اپنی طرف سے نہیں ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے۔ غرض جس شخص نے ناحق جوش میں آکر مجھ کو کافر قرار دیا اور میرے لئے فتویٰ طیار کیا کہ یہ شخص کافر دجّال کذّاب ہے۔ اس نے خدا تعالیٰ کے حکم سے تو کچھ خوف نہ کیا کہ وہ اہلِ قبلہ اور کلمہ گو کو کیوں کافر بناتا ہے اور ہزارہا بندگانِ خدا کو جو کتاب اللہ کے تابع اور شعارِ اسلام ظاہر کرتے ہیں کیوں دائرہ اسلام سے خارج کرتا ہے لیکن مجسٹریٹ ضلع کی ایک دھمکی سے ہمیشہ کے لئے یہ قبول کرلیا کہ میں آیندہ ان کو کافر اور دجّال اور کذّاب نہیں کہوں گا۔ ہو جاتا ہے اور سب سے پہلے دولتِ ایمان اُس سے چھین لیتا ہے تب بلعم کی طرح صرف لفاظی اور زبانی قیل و قال اُس کے پاس رہ جاتی ہے۔ اور جو نیک بندوں کی خدا تعالیٰ کی طرف نسبت اُنس اورشوق اور ذوق اور محبت اور تبتل اور تقویٰ کی ہوتی ہے وہ اُس سے کھوئی جاتی ہے اور وہ خود محسوس کرتا ہے کہ ایّام موجودہ سے دس سال پہلے جو کچھ اُس کو رِقّت اور انشراح اور بسط اور خدا کی طرف جھکنے اور دنیا اور اہل دنیا سے بیزاری کی حالت دِل میں موجود تھی اور جس طرح سچے زہد کی چمک کبھی کبھی اُس کو آگاہ کرتی تھی کہ وہ خدا کے عباد صالحین میں سے ہوسکتا ہے۔ اب وہ چمک بکلّی اُس کے اندر سے جاتی رہی ہے اور دنیا طلبی کی ایک آگ اُس کے اندر بھڑک اُٹھتی ہے اور انکار اہل اللہ کی شامت سے اُس کو یہ بھی خیال نہیں آتا کہ جس زمانہ میں اُس کے خیال نیک او ر پاک اور زاہدا نہ تھے اب اُس زمانہ کی نسبت اُس کی عمر بہت زیادہ ہوگئی ہے۔ غرض اُس کو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ مجھ کو کیا ہوگیا اور دنیا طلبی میں گرا جاتا اور دنیا کا جاہ ڈھونڈتا ہے حالانکہ موت کے قریب ہوتا ہے۔ غرض اسی طرح ایمان کا نور اُس کے دل سے چھین لیتے ہیں اور اولیاء اللہ کی عداوت سے دوسرا سبب سَلب ایمان کا