بلاشبہ ایسے ہرایک آدمی کو ضلالت کی آلودگی سے مبتلا سمجھتا ہوں جو حق اور راستی سے منحرف ہے لیکن میں کسی کلمہ گو کا نام کافر نہیں رکھتا جب تک وہ میری تکفیر اور تکذیب کرکے اپنے تئیں خود کافر نہ بنالیوے۔ سو اِس معاملہ میں ہمیشہ سے سبقت میرے مخالفوں کی طرف سے ہے کہ انہوں نے مجھ کو کافرکہا۔ میرے لئے فتویٰ طیار کیا۔ میں نے سبقت کرکے اُن کے لئے کوئی فتویٰ طیار نہیں کیا اور اس بات کا وہ خود اقرار کرسکتے ہیں کہ اگر میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک مسلمان ہوں تو ؔ مجھ کو کافر بنانے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فتویٰ اُن پر یہی ہے کہ وہ خود کافر ہیں۔ سو میں اُن کو کافر نہیں کہتا بلکہ وہ مجھ کو کافر کہہ کر خود فتویٰ نبوی کے نیچے آتے ہیں۔ سو اگرمسٹر ڈوئی صاحب کے روبرو میں نے اِس بات کا اقرار کیاہے کہ میں اُن کو کافر نہیں کہوں گا تو واقعی میرا یہی مذہب ہے
ولیًّالی فقد اٰذنتُہٗ للحرب۔ یعنی جو میرے ولی کادشمن بنتا ہے تو میں اُس کو کہتا ہوں کہ بس اب میری لڑائی کے لئے طیارہو جا۔ اگرچہ اوائل عداوت میں خداوند کریم و رحیم کے آگے ایسے لوگوں کی طرف سے کسی قدر عدم معرفت کا عذر ہوسکتاہے لیکن جب اس ولی اللہ کی تائید میں چاروں طرف سے نشان ظاہر ہونے شروع ہوجاتے ہیں اور نورِ قلب اس کو شناخت کر لیتا ہے اور اس کی قبولیت کی شہادت آسمان اور زمین دونوں کی طرف سے بہ آواز بلند کانوں کو سنائی دیتی ہے تو نعوذ باللہ اس حالت میں جو شخص عداوت اورعناد سے باز نہیں آتا اور طریق تقویٰ کو بکلّی الوداع کہہ کر دِل کو سخت کر لیتا ہے اور عناد اور دشمنی سے ہروقت درپئے ایذاء رہتاہے تواس حالت میں وہ حدیث مذکورہ بالا کے ماتحت آجاتا ہے۔ خدا تعالیٰ بڑا کریم و رحیم ہے وہ انسان کو جلد نہیں پکڑتا لیکن جب انسان نا انصافی اور ظلم کرتا کرتا حد سے گذر جاتا اور بہرحال اس عمارت کو گرانا چاہتا ہے اور اس باغ کو جلانا چاہتا ہے جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے طیار کیاہے تو اس صورت میں قدیم سے اور جب سے کہ سلسلہ نبوت کی بنیاد پڑی ہے عادۃ اللہ یہی ہے کہ وہ ایسے مفسد کا دشمن