حاکم کے خوف سے اپنے تمام فتووں کو برباد کرلیا اور حُکّام کے سامنے اقرار کردیا کہ میں آیندہ اِن کو کافر نہیں کہوں گا اور نہ اِن کا نام دجال اور کاذب رکھوں گا۔ پس سوچنے کے لائق ہے کہ اِس سے زیادہ اور کیا ذلّت ہوگی کہ اُس شخص نے اپنی عمارت کو اپنے ہاتھوں سے گرایا۔ اگر اُس عمارت کی تقویٰ پر بنیاد ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ محمدحسین اپنی قدیم عادت سے باز آجاتا۔ ہاں یہ سچ ہے کہ اس نوٹس پر میں نے بھی دستخط کئے ہیں مگر اس دستخط سے خدا اور منصفوں کے نزدیک میرے پر کچھ الزام نہیں آتا اور نہ ایسے دستخط میری ذلّت کا موجب ٹھہرتے ہیں کیونکہ ابتدا سے میرا یہی مذہب ہے کہ میرے دعوے کے اِنکار کی وجہ سے کوئی شخص کافریا دجّال نہیں *ہوسکتا۔ ہاں ضال اور جادۂ صواب سے منحرف ضرور ہوگا او ر میں اس کا نام بے ایمان نہیں رکھتا ہاں میں ایسے سب لوگوں کو ضال اور جاد ۂ صدق و صواب سے دور سمجھتا ہوں جو اُن سچائیوں سے اِنکار کرتے ہیں جو خدا تعالیٰ نے میرے پر کھولی ہیں۔میں * یہ نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اپنے دعوے کے انکار کرنے والے کو کافر کہنا یہ صرف اُن نبیوں کی شان ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے شریعت اور احکام جدیدہ لاتے ہیں۔ لیکن صاحب الشریعتکے ماسوا جس قدر ملہم اور محدث ہیں گو وہ کیسی ہی جنابِ الٰہی میں اعلیٰ شان رکھتے ہیں اورخلعتِ مکالمہ الٰہیہ سے سرفراز ہوں ان کے انکار سے کوئی کافر نہیں بن جاتا۔ ہاں بدقسمت منکر جو ان مقربانِ الٰہی کا انکار کرتا ہے وہ اپنے انکار کی شامت سے دن بدن سخت دِل ہوتاؔ جاتا ہے یہاں تک کہ نورِ ایمان اُس کے اندر سے مفقود ہو جاتاہے اور یہی احادیث نبویہ سے مستنبط ہوتا ہے کہ انکار اولیاء اور اُن سے دشمنی رکھنا اوّل انسان کو غفلت اور دُنیا پرستی میں ڈالتا ہے اور پھر اعمالِ حسنہ اور افعالِ صدق اور اخلاص کی اُن سے توفیق چھین لیتا ہے اور پھر آخر سلبِ ایمان کا موجب ہوکردینداری کی اصل حقیقت اور مغزسے اُن کو بے نصیب اور بے بہرہ کر دیتا ہے اور یہی معنے ہیں اس حدیث کے کہ من عادا