کیا اُس کے لئے یہ ذلّت نہیں ہے کہ اب تک اُس کو یہ خبر ہی نہیں کہ عجب کا صِلہ لام بھی آیا کرتا ہے۔ کیا اِس قدر جہالت کہ مشکوٰۃ کی کتاب الایمان کی حدیث کی بھی خبر نہیں۔ کیا یہ عزت کاموجب ہے اور اس سے مولویّت کے دامن کو کوئی ذلّت کا دھبہ نہیں لگتا؟ پھر جبکہ یہ امر پبلک پر عام طور پر کھل گیا اور ہزارہا اہل علم کو معلوم ہوگیا کہ محمد حسین نہ ؔ صرف علم صرف ونحو سے ناواقف ہے بلکہ جو کچھ احادیث کے الفاظ ہیں اُن سے بھی بے خبر ہے تو کیا یہ شہرت اُس کی عزت کا موجب ہوئی یا اُس کی ذلّت کا ؟۔
پھر تیسرا پہلو ۲۱؍ نومبر ۸۹۸اء کی پیشگوئی کے پوراہونے کا یہ ہے کہ مسٹر جے ایم ڈوئی صاحب بہادر سابق ڈپٹی کمشنر و ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ضلع گورداسپور نے اپنے حکم ۲۴ ؍ فروری ۱۸۹۹ ء میں مولوی محمد حسین سے اِس اقرار پر دستخط کرائے کہ وہ آیندہ مجھے دجال اور کافر اور کاذب نہیں کہے گا۔ اور قادیاں کو چھوٹے کاف سے نہیں لکھے گا اور اُس نے عدالت کے سامنے کھڑے ہوکر اقرار کیا کہ آیندہ وہ مجھے کسی مجلس میں کافر نہیں کہے گا اور نہ میرا نام دجّال رکھے گا اور نہ لوگوں میں مجھے جھوٹا اور کاذب کرکے مشہور کرے گا۔ اب دیکھو کہ اِس اقرار کے بعد وہ استفتاء اُس کا کہاں گیا جس کو اُس نے بنارس تک قدم فرسائی کرکے طیار کیا تھا اگر وہ اُس فتویٰ دینے میں راستی پر ہوتا تو اُس کو حاکم کے رُوبروئے یہ جواب دینا چاہیئے تھا کہ میرے نزدیک بے شک یہ کافر ہے اس لئے میں اس کو کافر کہتا ہوں اور دجّال بھی ہے اِس لئے میں اس کا نام دجّال رکھتا ہوں اور یہ شخص واقعی جھوٹا ہے۔ اِس لئے میں اس کو جھوٹا کہتا ہوں بالخصوص جس حالت میں خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم سے میں اب تک اور اخیر زندگی تک اُنہی عقائد پر قائم ہوں جن کو محمد حسین نے کلماتِ کفر قرار دیا ہے تو پھر یہ کس قسم کی دیانت ہے کہ اُس نے