بھی عجب کا صلہ لام آیا ہے اور اسی حماسہ میں ایک او رشعر ہے جو اِسی قِسم کا ہے اوروہ یہ ہے:۔
عَجبْتُ لِعِبْدَانٍ ھَجَوْنِی سَفاھَۃً أنِ اصْطَبَحُوا مِنْ شاءِھِمْ وَتَقَیََّلُوا
یعنی مجھے تعجب آیا کہ کنیزک زادوں نے سراسر حماقت سے میری ہجو کی اور اِس ہجو کا سبب اُن کی صبح کی شراب اوردوپہر کی شراب تھی۔ اب دیکھو اِس شعر میں بھی عجب کا صِلہ لام آیا ہے اور اگر یہ کہو کہ یہ تو اُن شاعروں کے شعر ہیں جو جاہلیت کے زمانہ میں گذرے ہیں وہ تو کافر ہیں ہم اُن کی کلام کو کب مانتے ہیں تو اِس کا جواب یہ ہے کہ وہ لوگ بباعث اپنے کفر کے جاہل تھے نہ بباعث اپنی زبان کے بلکہ زبان کی رُو سے تو وہ امام مانے گئے ہیں۔ یہاں تک کہ قرآن شریف کے محاورات کی تائید میں اُن کے شعر تفاسیر میں بطور حجت پیش کئے جاتے ہیں اور اِس سے انکار کرنا ایسی جہالت ہے کہ کوئی اہل علم اِس کو قبول نہیں کرے گا۔ ماسوا اِس کے یہ محاورہ صرف گذشتہ زمانہ کے اشعار میں نہیں ہے بلکہ ہمارے سیّد و مولیٰ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے بھی اِسی محاورہ کی تائید ہوتی ہے مثلاً ذرہ مشکوٰۃ کو کھولو اور کتاب الایمان کے صفحہ ۳ میں اُس حدیث کو پڑھو جو اِسلام کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے جس کو متّفق علیہ بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے:۔ عجبنالہ یسئلہٗ ویصدّقہٗ ۔ یعنی ہم نے اس شخص کی حالت سے تعجب کیا کہ پوچھتا بھی ہے اور پھر مانتا بھی جاتا ہے۔ اب دیکھو کہ اِس حدیث شریف میں بھی عجبنا کا صلہ لام ہی لکھا ہے اور عبجنا منہ نہیں لکھا بلکہ عبجنا لہ کہا ہے۔
اب کوئی مولوی صاحب انصافاً فرماویں کہ ایک شخص جو اپنے تئیں مولوی کہلاتا ہے بلکہ دوسرے مولویوں کا سرگروہ اور ایڈوکیٹ اپنے تئیں قرار دیتا ہے