شعر میں بھی اس بلیغ فصیح شاعر نے عجب کا صِلہ لام ہی بیان کیا ہے جیسا کہ لفظ لمسراھا سے ظاہر ہے اور ایسا ہی وہ تمام اشعار اس دیوان کے جو صفحہ ۳۹۰ و ۴۱۱ و ۵۷۵ و ۵۱۱ میں درج ہیں ان سب میں عجب کا صِلہ لام ہی لکھا ہے۔ جیسا کہ یہ شعر ہے:۔ عجبت لسعی الدّھر بینی وبینھا فلمّا انقضی ما بیننا سکن الدّھر یعنی مجھے اِس بات سے تعجب آیا کہ زمانہ نے ہم میں جدائی ڈالنے کے لئے کیا کیا کوششیں کیں مگر جب وہ ہمارا وقت عشق بازی کا گذر گیا تو زمانہ بھی چپ ہوگیا۔ اب دیکھو کہ اس شعر میں بھی عجب کا صِلہ لام ہی آیا ہے۔اور ایسا ہی حماسہ کا یہ شعر ہے:۔ عجبت لبرء ی منک یا عزبعد ما عمرتُ زماؔ نًا منک غیر صحیح یعنی اے معشوقہ یہ عجیب بات ہے کہ تیرے سبب سے ہی میں اچھا ہوا ۔ یعنی تیرے وصال سے اور تیرے سبب سے ہی ایک مُدّت دراز تک میں بیمار رہا یعنی تیری جدائی کی وجہ سے علیل رہا۔ شاعر کا منشاء اس شعر سے یہ ہے کہ وہ اپنی معشوقہ کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ میری بیماری کا بھی تو ہی سبب تھی او ر پھر میرے اچھا ہوجانے کا بھی تو ہی سبب ہوئی۔ اب دیکھو کہ اِس شعر میں بھی عجب کا صِلہ لام ہی آیا ہے۔ پھر ایک اور شعر حماسہ میں ہے اور وہ یہ ہے:۔ عجبًا لاحمد والعجائب جمۃ انّٰی یلوم علی الزّمان تبذّلی یعنی مجھ کو احمد کی اس حرکت سے تعجب ہے اور عجائب پر عجائب جمع ہو رہے ہیں کیونکہ وہ مجھے اِس بات پر ملامت کرتا ہے کہ میں نے زمانہ کی گردش سے بازی کو کیوں ہار دیا۔ وہ کب تک مجھے ایسی بیہودہ ملامت کرے گا۔ کیا وہ نہیں سمجھتا کہ ہمیشہ زمانہ موافق نہیں رہتااور تقدیر بد کے آگے تدبیر پیش نہ جاتی۔ پس میرا اِس میں کیا قصور ہے کہ زمانہ کی گردش سے میں نا کام رہا۔ اب دیکھو کہ اِس شعر میں