نہ لام۔اس اعتراض کا جواب میں نے اپنے اُس اشتہار میں دیا ہے جس کے عنوان پر موٹی قلم سے یہ عبارت ہے:۔ ’’ حاشیہ متعلقہ صفحہ اوّل اشتہار مورخہ ۳۰؍ نومبر ۱۸۹۸ ؁ء‘‘ اِس جواب کا ماحصل یہ ہے کہ معترض کی یہ نادانی اور ناواقفیت اور جہالت ہے کہ وہ ایسا خیال کرتا ہے کہ گویا عجب کا صلہ لام نہیں آتا۔ اِس اعتراض سے اگر کچھ ثابت ہوتا ہے تو بس یہی کہ معترض فن عربی سے بالکل بے بہرہ اور بے نصیب ہے اور صرف نام کامولوی ہے کیونکہ ایک بچہ بھی جس کو کچھ تھوڑی سی مہارت عربی میں ہو سمجھ سکتا ہے کہ عربی میں عجب کا صِلہ لام بھی بکثرت آتا ہے اور یہ ایک شایع متعارف امر ہے اور تمام اہل ادب اور اہل بلاغت کی کلام میں یہ صلہ پایا جاتا ہے چنانچہ اس مشہور معروف شعر میں لام ہی صلہ بیان کیا گیا ہے اوروہ یہ ہے:۔ عجبتُ لمولود لیس لہٗ ابٌ ومن ذی ولد لیس لہٗ ابوان یعنی اُس بچہ سے مجھے تعجب ہے جس کا باپ نہیں یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ۔ اور اس سے زیادہ تعجب اُس بچوں والے سے ہے جس کے ما ں باپ دونوں نہیں۔ اِس شعر میں دونوں صلوں کا بیان ہے لام کے ساتھ بھی اور من کے ساتھ بھی۔ اور ایسا ہی دیوان حماسہ میں جو بلاغت فصاحت میں ایک مسلّم اور مقبول دیوان ہے اور سرکاری کالجوں میں داخل ہے۔ پانچ شعر میں عجب کا صلہ لام ہی لکھا ہے۔ چنانچہ منجملہ ان کے ایک شعر یہ ہے جو دیوان مذکور کے صفحہ ۹ میں درج ہے:۔ عجبتُ لمسراھا واَنّٰی تخلّصت الیّ وباب السّجن دونی مُغْلق یعنی وہ معشوقہ جو عالمِ تصوّر میں میرے پاس چلی آئی مجھے تعجب ہوا کہ وہ ایسے زندان میں جس کے دروازے بند تھے میرے پاس جو میں قید میں تھا کیونکر چلی آئی۔ دیکھو اِس