ہونے سے وہ ڈرتا تھاکہ اپنی قوم مسلمانوں کے رُوبرو تو اُس نے یہ ظاہر کیا کہ وہ ایسے مہدی کو بدل و جان مانتا ہے کہ جو دُنیا میں آکر لڑائیاں کرے گا او رہر ایک قوم کے مقابل پر یہاں تک کہ عیسائیوں کے مقابل پر بھی تلوار اُٹھائے گا۔ اور پھر اِس فہرست انگریزی کے ذریعہ سے گورنمنٹ پر یہ ظاہر کرنا چاہا کہ وہ خونی مہدی کے متعلق تمام حدیثوں کو مجروح اور ناقابل اعتبار جانتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کی قدرت سے وہ پوشیدہ کارروائی اُس کی پکڑی گئی اورنہ صرف قوم کو اس سے اطلاع ہوئی بلکہ گورنمنٹ تک بھی یہ بات پہنچ گئی کہ اُس نے اپنی تحریروں میں دونوں فریق گورنمنٹ اور رعایا کو دھوکا دیا ہے اور ہر ایک ادنیٰ عقل کا اِنسان بھی سمجھ سکتاہے کہ یہ پردہ دری محمد حسین کی ذِلّت کا باعث تھی اور وہی اِنکارِ مہدی جس کی وجہ سے اِس ملک کے نادان مولوی مجھے کافر او ر دجّال کہتے تھے محمدحسین کے انگریزی رسالہ سے اِس کی نسبت بھی ثابت ہوگیا یعنی یہ کہ وہ بھی اپنے دل میں ایسی حدیثوں کو موضوعؔ اور بیہودہ اور لغو جانتا ہے۔ غرض یہ ایک ایسی ذلت تھی کہ یک دفعہ محمد حسین کو اپنی ہی تحریر کی وجہ سے پیش آگئی اور ابھی ایسی ذلت کا کہاں خاتمہ ہے۔ بلکہ آیندہ بھی جیسے جیسے گورنمنٹ اور مسلمانوں پرکھلتا جائے گا کہ کیسے اِس شخص نے دو رنگی کا طریق اختیار کر رکھا ہے ویسے ویسے اِس ذلت کا مزہ زیادہ سے زیادہ محسوس کرتا جائے گا۔ اور اس ذلت کے ساتھ ایک دوسری ذِلت اُس کو یہ پیش آئی کہ میرے اشتہار ۲۱؍ نومبر ۱۸۹۸ ء کے صفحہ ۲ کے اخیر سطر میں جو یہ الہامی عبارت تھی کہ اتعجب لامری اس پر مولوی محمد حسین صاحب نے یہ اعتراض کیا کہ یہ عبارت غلط ہے اس لئے یہ خدا کا الہام نہیں ہوسکتا اور اِس میں غلطی یہ ہے کہ فقرہ ا تعجب لامری میں جو لفظ لا مری لکھا ہے یہ من امری چاہیئے تھا کیونکہ عجب کاصلہمن آتا ہے