کرنے کی غرض سے تمام لوگوں میں مشہور کیا کہ یہ شخص مہدی معہود اور مسیح موعود سے منکر ہے اِس لئے بے دین اور کافر اوردجّال ہے بلکہ اِسی غرض سے ایک استفتا لکھا اور علماء ہندوستان اور پنجاب کی اس پر مہریں ثبت کرائیں تا عوام مسلمان مجھ کو کافر سمجھ لیں اور پھر اِسی پر بس نہ کیا بلکہ گورنمنٹ تک خلاف واقعہ یہ شکایتیں پہنچائیں کہ یہ شخص گورنمنٹ انگریزی کا بدخواہ اور بغاوت کے خیالات رکھتا ہے اور عوام کے بیزار کرنے کے لئے یہ بھی جابجا مشہور کیا کہ یہ شخص جاہل اور علم عربی سے بے بہرہ ہے اور اِن ؔ تینوں قسم کے جھوٹ کے استعمال سے اس کی غرض یہ تھی کہ تا عوام مسلمان مجھ پر بدظن ہوکر مجھے کافر خیال کریں اور ساتھ ہی یہ بھی یقین کرلیں کہ یہ شخص درحقیقت علم عربی سے بے بہرہ ہے اور نیز گورنمنٹ بدظن ہوکر مجھے باغی قرار دے یا اپنا بدخواہ تصوّر کرے۔ جب محمد حسین کی بد اندیشی اِس حد تک پہنچی کہ اپنی زبان سے بھی میری ذِلّت کی اور لوگوں کو بھی خلاف واقعہ تکفیر سے جوش دلایا اور گورنمنٹ کو بھی جھوٹی مخبریوں سے دھوکہ پھر موسیٰ کی معرفت بے گناہ لوگوں کے مال بنی اسرائیل کے قبضہ میں دیوے اور نہایتؔ قابلِ شرم طریق یعنی دروغ گوئی سے وہ مال لیا جائے اور پھر عہد شکنی سے ہضم کیا جائے ایسا ہی مسیح کو اجازت دی کہ و ہ حرام کا عطر ملوانے سے نفرت نہ کرے اور نامحرم عورت جوان حسین کے اعضا سے اعضا ملانے کے وقت کچھ بھی تقویٰ اور پرہیزگاری کا پاس نہ کرے اور پھر ایک طرف تو خدا خونِ ناحق کو کبائر میں داخل کرے اور پھر خضر کو اجازت دے کہ تا معصوم بچے کو بے گناہ قتل کردے۔ اِس اشکال کا جواب یہی ہے کہ ایسے اعتراضات صرف بدظنّی سے پیدا ہوتے ہیں اگر کوئی حق کا طالب اور متقی طبع ہے تو اُس کے لئے مناسب طریق یہ ہے کہ ان کاموں پر اپنی رائے ظاہر نہ کرے جو متشابہات میں سے اور بطور شاذ و نادر ہیں کیونکہ شاذ نادر میں کئی وجوہ پیدا ہوسکتے ہیں اور یہ فاسقوں کا طریق ہے کہ نکتہ چینی کے وقت میں اُس پہلو کو چھوڑ دیتے ہیں جس کے صدہا نظائر موجود ہیں۔ اور بدنیتی کے جوش سے ایک ایسے