ہوجاتا ہے بلکہ یہ صلاحیت بہت ترقی کرکے بطور ایک نشان اور خارق عادت امر کے اس میں ظاہر ہوتی ہے۔ غرض یہ چار مراتب کمال ہیں جن کو طلب کرنا ہر ایک ایماندار کا فرض ہے اور جو شخص ان سے بکلّی محروم ہے وہ ایمان سے محروم ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ جلّ شانہ ٗ نے سورہ فاتحہ میں مسلمانوں کے لئے یہی دعا مقرر کی ہے کہ وہ اِن ہر چہار کمالات کو طلب کرتے رہیں۔ اور وہ دعا یہ ہے 33 3 ۱ اور قرآن شریف کے دوسرے مقام میں اِس آیت کی تشریح کی گئی ہے اور ظاہر فرمایا گیا ہے کہ منعم علیھم سے مراد نبی اور صدیق اور شہید اور صالحین ہیں۔ اور انسان کامل اِن ہر چہار کمالات کامجموعہ اپنے اندر رکھتاہے۔
۷۰ منجملہ خدا تعالیٰ کے ان نشانوں کے جو میری تائید میں ظہور میں آئے وہ پیشگوئی ہے جو میں نے اشتہار ۲۱؍ نومبر ۱۸۹۸ ء میں کی تھی۔ تفصیل اِس اجمال کی یہ ہے کہ مولوی محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنہ نے میرے ذلیل
سے ہی منکر ہیں۔ وہ قصہ جو قرآن شریف میں حضرت آدم صفی اللہ کیؔ نسبت مذکور ہے جو فرشتوں نے اُن پر اعتراض کیا اور جناب الٰہی میں عرض کیا کہ کیوں تو ایسے مفسد اور خون ریز کو پیدا کرتاہے؟ یہ قصہ اپنے اندر یہ پیشگوئی مخفی رکھتا ہے کہ اہلِ کمال کی ہمیشہ نکتہ چینی ہوا کرے گی۔ خدا تعالیٰ نے اِسی غرض سے خضر کا قصہ بھی قرآن شریف میں لکھا ہے تا لوگوں کو معلوم ہو کہ ایک شخص ناحق خون کرکے او ر یتیموں کے مال کو عمداً نقصان پہنچاکر پھر خدا تعالیٰ کے نزدیک بزرگ اور برگزیدہ ہے۔ ہاں اس سوال کا جواب دینا باقی رہا کہ اس طرح پر امان اُٹھ جاتا ہے اور شریر انسانوں کے لئے ایک بہانہ ہاتھ آجاتا ہے۔اور وہ کوئی بدعملی کرکے خضر کی طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے خدا کے حکم سے یہ کام کیا ہے اوریہ ایک مقامِ اشکال ہے کہ ایک طرف تو خدا یہ کہے کہ میں ظلم اور فحشاء کاحکم نہیں دیتا اور