دینا چاہا اور یہ ارادہ کیا کہ وجوہ متذکرہ بالا کو عوام اور گورنمنٹ کے دِل میں جماکر میری ذِلّت کراوے تب میں نے اُس کی نسبت اور اُس کے دو دوستوں کی نسبت جو محمد بخش جعفرزٹلّی اور ابوالحسن تبتی ہیں وہ بد دعا کی جو اشتہار ۲۱؍ نومبر ۱۸۹۸ ء میں درج ہے اور جیسا کہ اشتہار مذکور میں مَیں نے لکھا ہے یہ الہام مجھ کو ہوا۔انّ الّذین یصدّون عن سبیل اللّٰہ سینالہم غضب من ربّھم۔ ضرب اللّٰہ اشدّ من ضرب النّاس۔ انّما امرنا اذا اردنا شیءًا ان نقول لہٗ کن فیکون۔ اتعجب لأمری۔ انّی مع العشّاق۔ انّی انا الرّحمٰنُ ذوالمجد والعلٰی ۔ ویعضّ الظّالم علی یدیہ۔ ویطرح بین یدیّ ۔ جزاء سیّءۃ بمثلھا وترھقھم ذلّۃ ۔ مالھم من اللّٰہ عاصم۔ فاصبر حتّٰی یأتی اللّٰہ بامرہٖ انّ اللّٰہ مع الّذین اتّقواوالّذ ین ھم محسنون۔ ترجمہ اِس الہام کا یہ ہے کہ
پہلو کو لے لیتے ہیں جو نہایت قلیل الوجود اور متشابہات کے حکم میں ہوتا ہے اور نہیں جانتے کہ یہ متشابہات کا پہلو جو شاذ نادر کے طور پر پاک لوگوں کے وجود میں پایا جاتاہے یہ شریر انسانوں کے امتحان کے لئے رکھا گیا ہے۔ اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو اپنے پاک بندوں کا طریق اور عمل ہر ایک پہلو سے ایسا صاف او رروشن دِکھلاتا کہ شریر انسان کو اعتراض کی گنجائش نہ ہوتی مگر خدا تعالیٰ نے ایسا نہ کیا تا وہ خبیث طبع انسانوں کا خبث ظاہر کرے۔ نبیوں او ر رسولوں اور اولیاء کے کارناموں میں ہزارہا نمونے ان کی تقویٰ اور طہارت او ر امانت اور دیانت اور صدق او رپاسِ عہد کے ہوتے ہیں اور خود خدا تعالیٰ کی تائیدات اُن کی پاک باطنی کی گواہ ہوتی ہیں۔ لیکن شریر انسان ان نمونوں کو نہیں دیکھتا اور بدی کی تلاش میں رہتا ہے آخر وہ حصہ متشابہات کا جو قرآن شریف کی طرح اس کے نسخہ وجود میں بھی ہوتا ہے مگر نہایت کم شریر انسان اسی کو اپنے اعتراض کا نشانہ بناتا ہے اور اس طرح ہلاکت کی راہ اختیار کرکے جہنم میں جاتا ہے۔ منہ