ایک چوتھامرتبہ بھی ہے جوؔ کامل اصفیاء او ر اولیاء کواکمل اور اتم طور پر ملتا ہے اور وہ صالحین کا مرتبہ ہے اور صالح اُس وقت کسی کو کہا جاتاہے جبکہ ہر ایک فساد سے اُس کا اندرون خالی اور پاک ہوجائے اور اُن تمام گندے اور تلخ مواد کے دور ہونے کی وجہ سے عبادت اور ذِکر الٰہی کا مزہ اعلیٰ درجہ کی لذت کی حالت پر آجائے کیونکہ جس طرح زبان کا مزہ جسمانی تلخیوں کی وجہ سے بگڑ جاتا ہے ایسا ہی رُوحانی مزہ رُوحانی مفاسد کی وجہ سے متغیر ہو جاتا ہے اور ایسے انسان کو کوئی لذّت عبادت اور ذِکر اِلٰہی کی نہیں آتی اور نہ کوئی انس اور ذوق اور شوق باقی رہتا ہے لیکن کامل انسان نہ صرف مواد فاسدہ سے پاک
اور ایسا ہی خوارج حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فاسق قرار دیتے ہیں اور بہت سے امور خلاف تقویٰ اُن کی طرف منسوب کرتے ہیں بلکہ حلیۂ ایمان سے بھی اُن کو عاری سمجھتے ہیں تو اِس جگہ طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جبکہ صدیق کے لئے تقویٰ اور امانت اور دیانت شرط ہے تو یہ تمام بزرگ اور اعلیٰ طبقہ کے انسان جو رسول اور نبی اور ولی ہیں کیوں خدا تعالیٰ نے اُن کے حالات کو عوام کی نظر میں مشتبہ کردیا اور وہ اُن کے افعال او راقوال کو سمجھنے سے اِس ؔ قدر قاصر رہے کہ اُن کو دائرہ تقویٰ او رامانت اور دیانت سے خارج سمجھا اور ایسا خیال کرلیا کہ گویا وہ لوگ ظلم کرنے والے اور مالِ حرام کھانے والے اور خون ناحق کرنے والے او ردروغ گوئی اور عہدشکن اور نفس پرست اور جرائم پیشہ تھے حالانکہ دنیا میں بہت سے ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں کہ نہ رسول ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور نہ نبی ہونے کا۔ اور نہ اپنے تئیں ولی اور امام اور خلیفۃ المسلمین کہلاتے ہیں لیکن باایں ہمہ کوئی اعتراض اُن کے چال چلن اور زندگی پر نہیں ہوتا تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایسا کیا کہ تا اپنے خاص مقبولوں اور محبوبوں کو بدبخت شتاب کاروں سے جن کی عادت بدگمانی ہے مخفی رکھے جیسا کہ خود وجود اس کا اِس قسم کی بدظنّی کرنے والوں سے مخفی ہے۔ بہتیرے دنیا میں ایسے پائے جاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کو گالیاں دیتے ہیں اور اُس کو ظالم او رناقدر شناس سمجھتے ہیں یا اُس کے وجود