دور ہو جاتی ہے۔اور خدا تعالیٰ کی ہرایک قضاء و قدر بباعث موافقت کے شہد کی طر ح دِل میں نازل ہوتی اور تمام صحنِ سینہ کو حلاوت سے بھر دیتی ہے اور ہر ایک ایلام انعام کے رنگ میں دِکھائی دیتا ہے۔ سو شہید اُس شخص کو کہا جاتا ہے جو قوتِ ایمانی کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا مشاہدہ کرتا ہو اور اُس کے تلخ قضا و قدر سے شہد شیریں کی طرح لذّت اُٹھاتا ہے اور اِسی معنے کے رو سے شہید کہلاتا ہے۔ اور یہ مرتبہ کامل مومن کے لئے بطور نشان کے ہے اور اِس کے بعد یہ عہد کیا کہ ہم ابھی چند روز کے بعد واپس آکر یہ تمام مال واپس دے دیں گے۔ مگر عہد کو توڑا اور مال بیگانہ ہضم کیا اور جھوٹ بولا اور کہتے ہیں کہ یہ موسیٰ کا گناہ تھا کیونکہ اُس کے مشورہ اور علم سے ایسا کیا گیا اور اُس نے اِس حرکت پر بنی اسرائیل کو کچھ سرزنش نہیں کی بلکہ اسی مال سے وہ بھی کھاتا رہا۔ ایسا ہی حضرت مسیح پر بھی اُن کے دشمنوں نے اعتراض کیا ہے کہ وہ تقویٰ کے پابند نہ تھے چنانچہ ایک بدکار عور ت نے ایک نفیس عطر جو بدکاری کے مال سے خریدا گیا تھا اُن کے سر پر ملا اور اپنے بالوں کو اُن کے پیروں پر ملا اور ایک جوان اور فاحشہ عورت کا اُن کے بدن کو چھونا اورحرام کا تیل اُن کے سر پر ملنا اور اُن کے اعضاء سے اپنے اعضاء کو لگانا یہ ایک ایساامر ہے جو ایک پرہیزگار اور متقی اِس کا مرتکب نہیں ہوسکتا۔ اور نیز مسیح کا اجازت دینا کہ تا اُس کے شاگرد ایک غیر کے کھیت کے خوشے بلا اجازت مالک کھاویں اِس بات پر دلالت کرتا ہے کہ نعوذ باللہ مسیح کو امانت اور دیانت کی پروا نہ تھی۔ یہ وہ اعتراض ہیں جو یہودیوں نے حضرت مسیح پر کئے ہیں اور یہودیوں کی چند کتابیں جو میرے پاس موجود ہیں اِسی قسم کی ایسی سختی ان میں حضرت مسیح علیہ السلام پر کی گئی ہے جن میں یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ نعوذ باللہ کوئی بھی نیک صفت حضرت مسیح میں موجود نہ تھی۔ ایسا ہی عیسائیوں نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عفت اور تقویٰ اور امانت پر اعتراض کئے ہیں اور نعوذ باللہ آنجناب کو ایک نفس پرست اور خونریز اور دوسروں کے مال لوٹنے والا انسان خیال کیاہے۔ اور ایسا ہی روافض نے حضرت ابوبکر او ر حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی عفت اور امانت اور دیانت اور عدالت پر انواع اقسام کے عیب لگائے ہیں اور اُن کے نام منافق غاصب ظالم رکھتے ہیں